**ریورس انجینئرنگ اور اتحاد کی قوت**

تحریر: مجد علی

10

انگریزی کی کہاوت “Survival of the Fittest” یعنی “سب سے موزوں کی بقاء” صرف حیاتیات کا اصول نہیں، بلکہ یہ فطرت کا مستند قاعدہ ہے۔ کوئی بھی وجود جب ٹوٹتا ہے، تو پارٹیکلز میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ لیکن انہی ذرات کا اجتماع ایک نئے وجود، ایک نئی طاقت کی بنیاد رکھتا ہے۔ جس طرح سیلز مل کر اعضاء، اور اعضا مل کر ایک جسم تشکیل دیتے ہیں، ویسے ہی گلیکسیز کائنات بناتی ہیں۔
حروف بھی اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں، مگر جب جڑتے ہیں تو الفاظ بنتے ہیں، اور الفاظ ہی رشتے، جذبات اور خیالات کو جنم دیتے ہیں۔ “ہ” اور “الف” سے مل کر “ہم” بنتا ہے۔ جو ایک چھوٹا سا لفظ، مگر معنی کی وسعت میں بے کنار ہے۔ “ہم” انسانوں کے اکٹھ، اجتماع، یا جماعت کو ظاہر کرتا ہے وہ ربط جو فرد کو فرد سے جوڑتا ہے، اور انسانوں کو ایک مقصد، ایک منزل پر متحد کرتا ہے۔ چند افراد ہوں یا ایک جم غفیر، جب کسی نصب العین پر یک جان ہو جائیں، تو ایک ناقابلِ تسخیر قوت بن جاتے ہیں۔ ہر اجتماع دراصل ایک “پاور پاکٹ” ہوتا ہے یعنی توانائی، امکانات اور تبدیلی کا سرچشمہ۔ مثلاً اردو کا حرف “م” دیکھئے: بظاہر ایک، مگر اصل میں دو اجزاء کا ملاپ، جو اتحاد کی علامت ہے۔ یہی اتحاد ہمیں لفظ “ہم” کی معنویت میں دکھائی دیتا ہے، اور یہی “ہم” جب “US” بنتا ہے تو United States امریکہ جیسی طاقتور قوم کا نعرہ بن جاتا ہے: “United we are power.” یہ سارا اتحاد، ساری قوت “ہم” کے محور کے گرد گھوم رہا ہے. یہ میم وحدت میں کثرت کی جھلک، یا کثرت میں وحدت کا جمال رکھتی ہے۔ تو صرف یہی ایسا حرف ہے جو خود میں ہے تو کثرت، مگر صورت میں یکتا ہے۔ جو حروف کی دنیا میں یکتا، بے مثل، اور قوت کا مخزن ہے۔
فطرت میں یہ اصول جابجا بکھرا ہوا ہے۔ گلشن میں اگر پھول ایک ترتیب سے کھِلیں، تو منظر میں جمال اترتا ہے۔ سکول کی اسمبلی میں ایک رنگ کے لباس میں ملبوس بچوں کی قطار، کسی نظم و ضبط کی خاموش تفسیر بن جاتی ہے۔ اشعار میں بار بار آنے والے الفاظ، قافیہ اور ردیف کی شکل میں، ایک ایسا نغمہ بناتے ہیں جو دل کی گہرائیوں کو چھو جاتا ہے، جذبات کی کلیاں کھِلا دیتا ہے۔
یہ نظر کو خیرہ کرتے حسین منظر، مہکتی خوشبوئیں سب، پرواز کی ہم آہنگی، پھولوں کی ترتیب، سکول کے بچوں کی صف بندی، شعروں کی مترنم لفظی تکرار کی موسیقیت کسی نہ کسی درجہ کے جمالی اتحاد سے جنم لیتے ہیں جو بکھری ہوئی کثرت کے سمٹ کر صورت یکتائی اختیار کرنے سے پھوٹتا ہے۔ یہی وہ خوشبو ہے جو اجتماع میں بسی ہوتی ہے، یہی وہ مسکراہٹ ہے جو اشتراک سے کھلتی ہے۔ اتحاد کا حسن، چاہے حروف میں ، انسانوں میں، ان کے مقاصد میں ہو یا فطرت میں، ہمیشہ دل کی دنیا کو مہکا دیتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں بھی اتحاد کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ جب قدرتی آفات آتی ہیں، جیسے زلزلے یا سیلاب، تب قوم جب یکجا ہو جاتی ہے تو معجزے رونما ہوتے ہیں۔ اتحاد صرف جنگ یا بحران میں نہیں، ہر شعبے میں کامیابی کی کلید ہے۔
اتحاد ہی وہ نکتہ ہے جس پر کائنات کی تخلیق مبنی ہے۔ جیسے “کُن” یکتائی اور واحدت کا ایک نقطہ ہے اور پوری کائنات کی کثرت اس سے مسلسل پھوٹ رہی ہے۔ جب یہ کثرت reunification rule کے تحت کسی مرکز، کسی مقصد، کسی فکر پر مجتمع ہو جائے تو طاقت پیدا ہوتی ہے۔ جیسے انگلیاں اکیلی کمزور، لیکن مکا بن کر طاقتور ہو جاتی ہیں، ایسے ہی افراد جب ایک مقصد کے لیے یکجا ہوں تو ناقابلِ تسخیر بن جاتے ہیں۔ یہاں سائنس کا “ریورس انجینئرنگ” کا اصول نہایت واضح انداز میں جلوہ گر ہوتا ہے: ہر شے ابتدائی نقطہء سنگولیریٹی سے نکل کر کثرت (انتشار) کی حالت اختیار کرتی ہے، لیکن جیسے ہی وہ منتشر عناصر دوبارہ کسی درجے کی وحدت، مثلاً ڈبل سیل یا کسی مرکز میں مجتمع ہوتے ہیں، تو وہ طاقت کا سرچشمہ بن جاتے ہیں۔ یعنی وہ اپنی قوت کو ایکسپوننشل ( exponential ) پاور بناتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، اجزاء کا سنگولیریٹی صورت میں پلٹنا دراصل ایک سائنسی و فطری ریورس انجینئرنگ ہے۔ چنانچہ کائنات کو سمجھنے کے لیے صرف انجینئرنگ اور ری انجینئرنگ ہی نہیں، بلکہ ریورس انجینئرنگ کی سائنس بھی انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔ اس سارے سرکولیڑی عمل کو اقبال نے اپنے یوں بیان کیا۔
“جھپٹنا پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ”
یہ اتحاد صرف فزکس کے پارٹیکلز تک محدود نہیں بلکہ یہ فکر، نیت اور مقصد کے اشتراک میں بھی ظہور پذیر ہوتا ہے۔ انسان جب اپنے ایمان، عقیدے، اور قول و فعل کو ایک مرکز پر لا کر اللہ سے وابستہ کر لیتا ہے، تبھی وہ مقامِ معراج کو چھو سکتا ہے۔ اسی طرح، جب حواسِ خمسہ یکجا ہو کر کسی ایک نکتہ پر مرتکز ہوتے ہیں، تو حیرت انگیز اور معجزاتی مظاہر کا ظہور ہونے لگتا ہے۔ درحقیقت، جب کسی شے کے تمام اجزاء یا عناصر اپنی بہترین ممکنہ حالت اور تناسب میں یکجا ہو جائیں، تو وہ اپنی فعّالیت (functional peak) کی بلند ترین سطح پر پہنچ جاتی ہے۔ یہی کامل ہم آہنگی طاقت کی اصل تعریف ہے — “The best possible combination of elements of a product is called power.” اگر کوئی چیز اس سطح کی ہم آہنگی پر موجود ہو، تو دیکھنے والا اس کا گرویدہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ وہ جمالیاتی و عقلی کمال ہے جو انسان کو فطرت اور خالق دونوں سے قریب تر کر دیتا ہے۔
قرآنِ پاک کی آیات بھی ہمیں یہی یاد دلاتی ہیں۔ سورت الصف میں ہے۔ “بے شک اللہ اُن لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اُس کی راہ میں صف بستہ ہوکر اس طرح لڑتے ہیں جیسے وہ سیسہ پلائی دیوار ہوں۔”۔ ایک اور جگہ حکم ہوتا ہے “اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور تفرقے میں نہ پڑو”۔ یہاں دراصل اپنے حاکم کے ارڈر پر سر تسلیم خم کر کے یکجا ہونے کا ہی اشارہ کیا گیا ہے۔ محاذ پر سپاہیوں کا ایک جسم کی مانند ہو کر سر دھڑ کی بازی لگانا ہی اُن کی قوت کا اصل راز ہوتا ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.