2021 میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد سے صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے ۔ان الزامات کے ساتھ کہ طالبان ٹی ٹی پی جیسے گروہوں کو پناہ دے رہے ہیں اور ان کی حمایت کر رہے ہیں حالات مزید کشیدہ ہو چکے ہیں ۔ پاکستان نے سفارتی کوششیں جاری رکھی ہیں اور طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ افغان سرزمین سے کام کرنے والے دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی کریں ۔ مزید برآں ، پاکستان نے افغانستان سے دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے امریکہ ، چین اور اقوام متحدہ جیسے بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کیا ہے ۔ پاکستان نے انسداد دہشت گردی کی کوششوں کے لیے بین الاقوامی حمایت طلب کی ہے اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ نئی افغان حکومت پر دباؤ ڈالے کہ وہ ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد تنظیموں سے تعلقات منقطع کرے ۔ پاکستان نے سرحد پار دہشت پگردی سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے اپنی سرحدی سلامتی اور انٹیلی جنس صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے بھی مدد کی درخواست کی ہے ۔
ان کوششوں کے ساتھ ساتھ پاکستان نے 2022 میں آپریشن عزم استحکام کا آغاز کیا ۔ یہ جامع فوجی آپریشن پاکستانی فوج نے ملک کے متعدد علاقوں میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں اضافے کے جواب میں شروع کیا تھا ۔ اس میں خاص طور پر ان علاقوں پر توجہ مرکوز کی گئی جہاں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر دہشت گرد دھڑوں جیسے گروہ دوبارہ متحد ہو گئے تھے اور انہوں نے پاکستانی سیکیورٹی فورسز اور شہریوں پر حملے دوبارہ شروع کر دیے تھے ۔
اس آپریشن کو پاکستان کے شمال مغربی قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا ، خاص طور پر افغانستان-پاکستان سرحد کے ساتھ ، جو عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کے لیے ایک پرانا ہاٹ اسپاٹ ہے ۔ آپریشن عزم استحکام کا بنیادی مقصد دہشت گرد گروہوں اور ان کی کمین گاہوں کو ختم کرنا تھا جو پاکستان کے امن و استحکام کے لیے خطرہ تھے ۔اس نے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ، خاص طور پر افغانستان-پاکستان سرحد کے ساتھ ، جہاں دہشت گرد گروہوں نے پاکستان میں شہری اور فوجی اہداف پر حملے کرنے کے لیے محفوظ پناہ گاہیں قائم کی تھیں ۔
ایک اور اہم مقصد پاکستان کے اندر سرگرم دہشت گرد گروہوں کے اعلی درجے کے رہنماؤں کو پکڑنا یا ختم کرنا تھا ۔ یہ رہنما حملوں کی منصوبہ بندی اور نئے اراکین کی بھرتی کے ذمہ دار تھے ۔ اس کارروائی کا مقصد قبائلی علاقوں ، خاص طور پر شمالی اور جنوبی وزیرستان ، خیبر پختونخوا اور شورش سے بہت زیادہ متاثر دیگر علاقوں میں امن و امان کی بحالی کرنا تھا ۔ عسکریت پسندوں پر توجہ مرکوز کرکے اس کارروائی میں مقامی برادریوں کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کی گئی جنہوں نے طویل عرصے سے تشدد اور لاقانونیت کو برداشت کیا تھا ۔
افغانستان-پاکستان سرحد کی غیر محفوظ نوعیت کو دیکھتے ہوئے آپریشن عزم استحکام نے دونوں ممالک کے درمیان دہشتگردوں کی نقل و حرکت کو روکنے کے لیے سرحدی سلامتی کو بہتر بنانے پر نمایاں زور دیا ۔ اس کا مقصد دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں میں حکومت اور شہری آبادی کے درمیان اعتماد کی تعمیر نو کرنا بھی تھا ۔ دہشت گرد گروہوں کی اپیل اور ان کے انتہا پسند نظریات کو کمزور کرنے کے لیے شہریوں کا تحفظ اہم تھا ۔
اس آپریشن میں ایک کثیر جہتی فوجی حکمت عملی استعمال کی گئی ، جس میں انٹیلی جنس پر مبنی آپریشنز (آئی بی اوز) فضائی نگرانی ، زمینی حملے اور پاکستانی فوج اور نیم فوجی دستوں پر مشتمل مشترکہ کارروائیاں شامل ہیں ۔ اس میں خیبر پختونخوا ، بلوچستان اور سابق قبائلی علاقوں کو خصوصی توجہ دی گئی جو طویل عرصے سے مختلف عسکریت پسند گروہوں کے گڑھ سمجھے جاتے تھے ۔
آپریشن کا ایک اہم پہلو دہشت گرد نیٹ ورکس کا سراغ لگانے اور انہیں بے اثر کرنے کے لیے انٹیلی جنس کا استعمال تھا ۔ پاکستان کی فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں نے دہشت گرد کمانڈروں اور ان کے ٹھکانوں کا پتہ لگانے اور ان کا خاتمہ کرنے کے لیے قابل عمل انٹیلی جنس جمع کرنے میں تعاون کیا ۔ آپریشن عزم استحکام نے مختلف فوجی شاخوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان ہم آہنگی کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا ۔ فوج ، فرنٹیئر کور اور پولیس دستوں نے مل کر دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر چھاپوں اور حملوں کو انجام دینے کے لیے کام کیا ۔ ان علاقوں میں جہاں دہشت گردوں کے ٹھکانوں تک رسائی مشکل تھی ان کو نشانہ بنانے کے لیے فضائی حملے اور توپ خانے تعینات کیے گئے تھے ۔ ان فضائی حملوں نے دہشتگرد گروہوں کی صلاحیتوں کو ختم کرنے اور ان کی کارروائیوں میں خلل ڈالنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ اس کارروائی کا مقصد نہ صرف عسکریت پسندوں کا براہ راست مقابلہ کرنا تھا بلکہ دہشت گردی کی حمایت کرنے والے بنیادی ڈھانچے ، جیسے ہتھیاروں کے ذخائر ، تربیتی کیمپوں اور مواصلاتی نیٹ ورکس کو بھی ختم کرنا تھا ۔ اس حکمت عملی کا مقصد خطے میں دہشت گرد گروہوں کی آپریشنل صلاحیتوں کو کم کرنا تھا ۔ دہشت گردوں کو سرحد عبور کرنے سے روکنے کے لیے پاکستان نے ڈیورنڈ لائن پر اضافی فوجی دستے تعینات کر کے اپنی سرحدی سلامتی کو مضبوط کیا ۔ اس کارروائی میں مزید حفاظتی چوکیاں بنانا اور دہشت گردوں کے زیر ر استعمال اہم راستوں پر نگرانی بڑھانا بھی شامل تھا ۔ اپنے آغاز کے بعد سے آپریشن عزم استحکام نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جنگ میں کئی اہم سنگ میل حاصل کیے ہیں ۔ ایک قابل ذکر کامیابی کئی اعلی درجے کے دہشت گردوں کا خاتمہ یا گرفتاری رہی ہے ، جن میں ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد دھڑوں کے کمانڈرز شامل ہیں ۔ یہ رہنما پاکستان میں بڑے حملوں کی منصوبہ بندی کے ذمہ دار تھے اور ان کے خاتمے نے ان گروہوں