عزت، غیرت یا بے رحمی

7

تحریر :ارجے ایشال خان

کبھی کبھی سمجھ نہیں آتی کہ حیاتِ مستعار میں کوئی دُکھ بھی نہیں ہوتا اور دماغ الجھاؤ کا شکار ہوجاتا ہے۔ درد بھری کیفیت جنم لے لیتی ہے۔ ہم چاہ کر بھی مسرور نہیں ہو پاتے ہیں۔ اس قدر بے چینی بے سکونی ہو جاتی ہے کہ ہم بے بس و لاچار سے ہوجاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے یہ جاننے کی تگ و دو بھی اکثر رائیگاں ہو جاتی ہے۔ بقول کاشف علی ارشد۔۔۔۔۔

اندروں سب کجھ مُک گیا اے
آس دا بوٹا سُک گیا اے

ایسے لمحاتِ پُر ملال میں ہم اپنی مرضی کی ہر فرحت پا کر بھی اُداس اُداس سے رہتے ہیں۔ ایک دن میں بیٹھے بیٹھے اس کیفیت میں مُبتلا تھی کہ اس کے پیچھے کیا محرکات ہیں، کیوں اُلجھنوں نے گھیرا رکھا ہے تو ایک بات ذہن میں اُبھری کہ شاید ہم دوسروں کے الم کا احساس نہیں کرتے، دوسروں کے دکھ، درد اور مصائب بھرے لمحات میں شریک نہیں ہوتے۔اور صرف اپنی خوشیوں کے پیچھے بھاگ رہے ہوتے ہیں، دوسروں کی خوشیوں کا احساس ہی نہیں کرتے جس کی وجہ سے ہم مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔

چاہتوں سے آشنا “کاشف”
سب دلوں کو خدا نہیں کرتا

یہی سوچتے سوچتے دماغ کی گاڑی ملک اسلم کے گھر جا کر رکی، سُنا ہے؛ ان کے بیٹے کو ایک شہری لڑکی سے الفت ہو گئی تھی تو جناب ملک صاحب نے کہا کہ وہ شہر جائیں گے اور اس لڑکی کا رشتہ اپنے بیٹے کے لیے ہر حال میں لے کر آئیں گے، کیوں کہ ملک صاحب کے بیٹے کی وہ لڑکی اکلوتی محبت ہے۔
مگر ُسننے میں آ رہا ہے کہ لڑکی والوں نے انکار کر دیا ہے۔ (وجہ یہ ہے کہ ملکوں نے پہلے اپنی بیٹی کا رشتہ چودھریوں کے لڑکے کو نہیں دیا تھا )

بیک سٹوری یہ ہے جناب کہ چوہدری صاحب اپنے بھائی کے لیے ملک اسلم کی بہن کا رشتہ لینے آئے تھے۔ (کیونکہ دونوں بچے ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے) لیکن اس وقت ملک صاحب کی غیرت جاگی اور انھوں نے اپنی بہن کا رشتہ چوھدری صاحب کے گھر میں کرنے سے انکار کر دیا۔

ہفتے کے اندر اندر ملک صاحب نے اپنی بہن کا رشتہ اپنے جاننے والوں کے گھر کر دیا۔ کچھ عرصے بعد ملک صاحب کی ماں ہر دربار پر جا کر ایک ہی منت مانگتی ہے کہ ہمارے داماد کو ہماری بیٹی سے محبت ہو جائے اور وہ اسے گھر میں سکھی رکھے۔ یہاں پر میرا ایک سوال ہے؟

غیرت صرف لڑکیوں کے لیے ہی کیوں جاگتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے خطے میں غیرت کے لفظ کو عورت کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے، ہمارے سماج میں اسی فی صد یہی سوچ وجہِ تنازع اور قتل و غارت گری کا سبب بھی بنتی ہے۔ بیٹی کے لیے غیرت جاگتی اور اس کی حیات تباد و برباد کر دی جاتی ہے۔

اب ملک صاحب چوھدری صاحب کے پاؤں پکڑنے اور معافی مانگنے کے لیے بھی تیار ہیں، کیونکہ بیٹے کی ضد ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وڈیروں کی غیرت کہاں گئی؟

احادیث میں ہے:
“رشتہ طے کرنے میں والدین کوچاہیے کہ اپنی بیٹی اور بیٹے
کی رضامندی بھی پوچھ لیں اور ان کی مرضی کے خلاف زبردستی شادی ہرگز ہرگز نہ کریں۔”

ایسے رشتے زیادہ عرصہ قائم نہیں رہ پاتے بلکہ بسا اوقات والدین کی طرف سےاس بھیانک غلطی کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔

کچھ دن پہلے مجھے اس بات کا بھی احساس ہوا کہ ہمارے ہاں بیٹیوں کو پڑھا تو لیا جاتا ہے مگر انھیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی،(شاید کچھ قصور یہاں معاشرے کا بھی ہے)اور کچھ قصور ہماری سوچ کا بھی ہے۔

میں ایک بات کہنا چاہوں گی ساری زندگی نہ باپ سر پہ رہتا ہے نہ ماں اور نہ ہی بھائی ساتھ رہتا ہے۔ زندگی میں اُونچ نِیچ آتی رہتی تو اپنی بچیوں کو اس قابل ضرور بنائیں کہ کل وہ اپنی ضرورت خود پوری کرسکیں۔ انھیں دو وقت کی روٹی کے لیے کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔

اپنی بچیوں کی بیک سپورٹ بنا کریں۔ یقین مانیں جب انھیں گھر سے بیک سپورٹ ملتی ہے، ان پر بھروسہ کیا جاتا ہے تو کبھی بھی کوئی بھی وہ ایسی غلطی نہیں کرتی جس کی وجہ سے گھر والوں کی غیرت پہ آنچ آئے۔ (چیک اینڈ بیلنس ضرور رکھیں) لیکن خدارا مینٹلی ٹارچر نہ کیا کریں یقین کریں میں نے ایسی بچیاں بھی دیکھی ہیں جو صرف فیملیز کے مینٹلی ٹارچر کی وجہ سے باغی بن جاتی ہیں۔

آج کل اکثر آپ نے دیکھا ہوگا کہ ڈپریشن کے کیسز سامنے آ رہے ہوتے ہیں، اس کی بڑی وجہ یہی ہوتی ہے کہ گھر میں اچھا ماحول نہیں ہوتا۔ اپنے بچوں کی بیک سپورٹ نہیں کی جاتی۔ ان کے ساتھ وقت نہیں گزارہ جاتا۔ نہ ہی ان کی کوئی بات سُنی جاتی ہےاور یہ بھی نہیں پوچھا جاتا کہ ان کے دل و دماغ کے اندر کیا سین چل کیا رہا ہے۔ کیا کہنا چاہتے ہیں وہ اپنی ماں سے، اپنے بھائی سے، اپنی بہن سے، ہر کوئی بس اپنی زندگی میں ہی مست ہوتا ہے۔ جب گھر پر توجہ نہ دی جائے تو پھر یہی بچے باہر توجہ ڈھونڈتے ہیں۔

باہر وہی محبت ڈھونڈتے ہیں جو گھر میں نہیں ملتی اور غلط راہوں کے مسافر بن جاتے ہیں۔ جب بچے غلط راستوں کے مسافر بن جاتے ہیں پھر ہماری غیرت جاگ جاتی ہے اور غیرت کے نام پر ہم پتہ نہیں کیا کچھ کر دیتے ہیں اور پھر کچھ عرصے بعد صرف پچھتاوا ہمارا مقدر بن جاتا ہے۔

لکھنے کو بہت کچھ ہے میرے پاس اتنی سٹوریز ہیں کہ یقین کریں کہ ہر وہ چہرہ میرے سامنے آ رہا ہے جس نے اپنا آپ کُھول کر میرے سامنے رکھا لیکن جب انسان لکھنے لگتا ہے نا تو اکثر وہ دکھ اتنے طاقت ور ہوتے ہیں کہ لفظ بھی سہم جاتے ہیں۔

کوشش کریں کہ زندگی میں کسی کا دکھ بڑھانے کی بجائے ان کے دکھوں میں ساتھ دیں۔ کسی کی اذیت میں اضافہ

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.