کامیاب جلسے کی روداد

2

انسان ۔۔۔۔۔احسان ناز

تحریک انصاف کا لاہور میں ہونے والا جلسہ کئی نقوش چھوڑ گیا، علی امین گنڈا پور نے جلسہ میں لیٹ آکر حکومت پنجاب کو یہ میسج دیا کہ خیبر پختون خوا کے عوام بھی پنجاب، سندھ، بلوچستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے اتنی ہی محبت رکھتے ہیں جتنی پنجاب کے لوگ تو یہ میسج اگر حکومت پنجاب سمجھ سکے تو وصول کر لے ، ورنہ جو کچھ وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری، وفاقی وزیر اطلاعات عطاء الللہ تارڑ سینیر وزیر پینجاب۔ مریم اورنگزیب اور دیگر وزراء 21 ستمبر کو بار بار پریس کانفرنس کر کے بتا رہے تھے کہ جلسہ میں پنجاب کے عوام نے شرکت نہیں کی، اگر شرکت نہیں کی تو پنجاب حکومت محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ کی قیادت میں خوش ہونا چاہیئے کہ کام ہو گیا اور اپنے ڈی ائی جی آپریشن لاہور کو یہ کہنے سے روک دے کہ میں نے اس جلسہ کے لیے 17 ہزار سے زائد پولیس کی نفری تعینات کی ہے جبکہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ جلسہ میں تین سے چار ہزار لوگ اکٹھے ہوئے ہیں۔ حکومت اگر موٹروے اور منڈی مویشیاں کاہنہ جلسہ گاہ کی طرف آنے والے تمام راستے نہ روکتی تو ممکن تھا کہ یہ جلسہ پاکستان میں ہونے والے تمام جلسوں کا ریکارڈ توڑ تا، بانی پی ٹی آئی اڈیالہ جیل میں بیٹھ کر اس کو نہ دیکھ سکے اگر وہ جیل سے باہر ھوتے تو پھر لاہور پولیس کو ایک لاکھ سے زیادہ پولیس اہلکار لگانے کی ضرورت پڑتی اگر حکومت جلسہ کرنے والے کو جلسہ کرنے دیتی اور طرح طرح کے روڑے نہ اٹکائے جاتے تو ایک میسج پنجاب حکومت سے بھی جاتا کہ ہم نے پاکستان تحریک انصاف کو احسن طریقے سے جلسہ کرنے کی اجازت دی ہے لیکن ایسی کوئی بات موجودہ حکومت کی سمجھ نہیں آتی ۔بار بار 12 دفعہ اس جلسے کے بارے میں حکومتی وزراء پریس کانفرنسیں کرتے رہے اور جلسہ شروع ہونے سے قبل کی تصاویر شیئر کرتے رہے اور اس موقع پر یہ بھی ظاہر ہوا کہ حکومت پنجاب کی تین خواتین مریم اورنگزیب عظمیٰ بخاری اور وزیراعلی’ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ نے جلسہ گاہ کے لیے خود منڈی مویشیاں کاہنہ کاچھا کا انتخاب کیا اور ان کے ذہن میں یہ تھا کہ لاہور سے 35 کلومیٹر دو لوگ جلسہ گاہ میں نہیں جا سکیں گے تو اس کا کریڈٹ ہم لیں گے۔ میں نے دیکھا کہ جب حکومتی وزرا ناکام جلسے کے بارے میں گفتگو فرما رہے تھے تو سات ٹی وی چینل والے فقید المیثال جلسہ کی جھلکیاں بھی پیش کر رہے تھے جس سے سچ اور جھوٹ کھل کر سامنے آرہا تھا ۔میں نے اپنے پورے 50 سالہ جرنلزم کی زندگی میں یہ نہیں دیکھا کہ کسی بھی جلسہ کو پولیس بند کرانے کے لیے طاقت اور دھونس کا استعمال نہ کرتی .ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ لاہور انتظامیہ کے اور پاکستان تحریک انصاف کی قیادت لاہور کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا وہ اس کو دیکھتے اور اس پر اگر عمل نہ ہوتا تو معاہدے کی تحریر کے مطابق قانون اپنا راستہ بناتا لیکن یہاں تو سرکار کے کارندے چھ بجے سے پہلے سٹیج پر چڑھ گئے اور پورے چھ بجے پنڈال کی بتیاں اور ڈی جے کے کنکشن گل کر دیے . ٹھیک ہے اپ کو یہ اختیار حاصل ہے کیونکہ اپ اس وقت اقتدار میں ہیں لیکن پہلے کبھی ایسا ہوا ہے کہ جلسہ گاہ میں پولیس آ کر مائیک اور بتیاں بند کر دیں ایسا نہیں ہوا یہ مسلم لیگ ن والےاپنے لیے خود گڑھا کھود رہے ہیں اگر ان کے ساتھ ایسا ہوا تو میں دیکھوں گا یہ کس طرح نہیں چلاتے تمام راستے بھی بندہوں ۔عظمیٰ بخاری اور عطاءاللہ تارڑ ٹی وی پر آکر پاؤں باندھ کر جھوٹ بول رھے ھوں کہ کوئی راستہ بند نہیں ہے حالانکہ پورے پاکستان میں اور خاص کر لاہور نے یہ دیکھا باقی سڑکیں تو چھوڑیں موٹروے کو جگہ جگہ راولپنڈی سے لے کر جلسہ گاہ تک کنٹینروں سے رکاوٹیں ڈالی گئیں اور علی امین گنڈا پور ان رکاوٹوں کو ہٹاتے ہوئے جلسہ گاہ میں تاخیر سے پہنچے میں تو اسے اللہ تعالیٰ کی حکمت سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تحریک انصاف کے ورکروں اور خصوصی طور علی امین گنڈا پور کو پینجاب حکومت کے ظلم و جبر سے بچایا حالانکہ وہ اگر جلسہ گاہ میں تقریر کرنا چاہتے تو تحریک انصاف کے کارکن اندھیرے میں بھی ان کی تقریر سننے کے لیے تیار تھے اور علی امین گنڈا پور کی اتنی اونچی اواز ہے کہ وہ بولتے تو جلسہ گاہ میں بیٹھے ہوئے لوگ انہیں سن سکتے تھے لیکن میں علی امین گنڈاپور کو مبارکباد دینا چاہتا ہوں کہ انہوں نے وہاں پر نہ تقریر کی اور نہ ہی اپنے ساتھیوں کو کسی قسم کا کوئی ھلہ گلہ کرنے کا موقع دیا اور تحریک انصاف کے چیئرمین گوہر الرحمٰن نے اپنی تقریر میں یہ پیغام دیا اب راستے مت روکو بہت راستے روک لیے لیکن اس کا فائدہ نہیں ہوا اسی طرح تحریک انصاف لاہور کی قیادت امتیاز شیخ افضل عظیم پاھٹ محترمہ زیبا ناز اور حلقہ این اے 124 کےامیدوار جھڈو ایڈووکیٹ نے بھرپور طریقے سے تین گھنٹوں میں جلسہ کو سجایا، بنایا، کرسیاں لگائیں، ڈی جے کا اہتمام کیا اور پھر پنڈال کی سکیورٹی کے لیے اپنے تحریک انصاف کے رضاکار متعین کیے اس لیے میں پاکستان تحریک انصاف لاہور کی قیادت کو شاباش کا حق دار سمجھتا ہوں کہ جنہوں نے لاہور انتظامیہ کی بربریت کے باوجود چند گھنٹوں میں عظیم الشان جلسہ منعقد کرنے کے لیے فضا سازگار کی اور 21 ستمبر کے جلسہ کو پاکستان کی تاریخ کا سب سے عظیم جلسہ کرکے دکھایا ۔حکمرانوں نے ہر وہ شرط رکھی جو کہ تحریک انصاف کبھی بھی قبول نہ کرتی لیکن قائد تحریک عمران خان کے حکم کے مطابق تمام ظالم حکم احکامات کو بھی تسلیم کر کے جلسہ کیا اس لیے پاکستان تحریک انصاف لاہور کی قیادت جلسہ کرنے میں کامیاب ہوئی۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.