ہمارے سپہ سالار سیسہ پلائی دیوار
ہمارے ہاں مٹھی بھر مخصوص، منحوس اورمایوس ’’ لوگ ‘‘ ریاست اورمعاشرت کیلئے’’روگ ‘‘ بنے ہوئے ہیں۔ان افراد کا ریاست سمیت ریاستی اداروں سے اظہارِ بیزاری ان کی پراگندہ اور پست ذہنیت کوظاہرکرتا ہے۔ریاست اپنے دوام اوراستحکام کیلئے ان بدبودار بونوں کیخلاف راست اقدام کرے۔ بھارت سمیت بیسیوں دشمنانِ پاکستان کی مذموم سرگرمیوں کے باوجود جو نادان پاک فوج اورآئی ایس آئی کیلئے ناپاک سوچ رکھتا ہو، راقم کے نزدیک وہ نادان نہیں بلکہ شیطان ہے۔ جس طرح کچھ نافرمان اپنے باپ سے پوچھ رہے ہوتے ہیں ’’آپ نے آج تک اپنے بچوں کیلئے کیا،کیا ہے ‘‘،اس طرح کچھ جاہل پاک فوج کی قربانیوں اورشہادتوں کے باجود دفاعی بجٹ پر بیجا انگلی اٹھاتے ہیں،یادرکھیں دفاعی بجٹ محض فوجیوں پرنہیں بلکہ دنیا کی ایک طاقتور فوج پرصرف ہوتا ہے،دنیا کے متعدد ملکوں کے مقابلے میں پاک فوج کابجٹ کچھ بھی نہیں۔یادرکھیں ریاست مدینہ کے بعد پاکستان دنیا کی دوسری نظریاتی اِسلامی ریاست ہے۔ اِسلام کے ساتھ بدترین تعصب کے نتیجہ میں کافرہمارے بم کوبھی ’’اسلامی بم ‘‘کانام دیتے ہیں جبکہ بھارت سمیت بیسیوں ملک مادروطن پاکستان کے دشمن ہیں لہٰذاء پاک فوج کو بیک وقت کئی محاذوں پرپاکستان کادفاع کرنا پڑتا ہے۔ ایٹمی پاکستان کواپنی آزاد اورخودمختار حیثیت کی حفاظت یقینی بنانے کیلئے ہردور میں ایک طاقتور فوج کی ضرورت رہے گی۔ جوچند بدبخت پاک فوج کے بجٹ پربحث کرتے ہیں ا ن میں سے کوئی ہے جو پندرہ بیس ملین کے عوض مادروطن کی وحدت اورحفاظت کیلئے دشمن کے مقابل میدان میں اترے، اپنی جان قربان اوراپنے بچوں کویتیم کرے۔ یہ مردہ ضمیرلوگ ہمارے زندہ وتابندہ پاکستان کیلئے بیش قیمت جان تودرکنار اپنی انگشت شہادت تک قربان نہیں کرسکتے ۔اس جاہل گروہ میں سے کوئی باشعور پاکستانیوں کانمائندہ نہیں ہوسکتا۔پاکستان کے سنجیدہ افراد اورطبقات کواپنی ریاست کی سا لمیت کیلئے ایک منظم اورمستعد پاک فوج کی ضرورت اوراہمیت کاادراک ہے ۔ اگر ان شتربے مہار اور گمراہ افراد کی سخت گرفت نہ کی گئی تویہ اچھوت اپنے زیراثر افراد کے صحتمند اذہان کوبھی بیمار کردیں گے۔ ان عناصر کو اپنے گھر کے اندرونی مسائل کا علم تک نہیں ہوتا لیکن انہوں نے سوشل میڈیاپراودھم مچاتے ہوئے ریاست کیخلاف زہراگلنا ، ریاستی معاملات پر منفی تبصرہ کرناجبکہ کسی جواز کے بغیر ارباب اختیار پرکیچڑاچھالنا اپنا حق سمجھ لیا ہے۔یادرکھیں دشمن کی ’’ گولی ‘‘ ہمارے فوجی جانبازوں کومرعوب نہیں کرسکتی لیکن اپنے ہم وطن چندنادانوں کیـ ’’ گالی ‘‘ سے انہیں جو زخم ملتا ہے وہ کبھی مندمل نہیںہوتا ۔سوشل میڈیا کے شتربے مہاروں نے نے ’’آزادی اظہار‘‘ کو’’آزادی آزار‘‘ بنادیا ہے تاہم یہ عناصر بار بار بے نقاب جبکہ مادروطن کے سنجیدہ طبقات ان کے احتساب کیلئے بیداراور بیقرار ہورہے ہیں۔یادرکھیں کوئی آزاد اسلامی معاشرہ مادرپدرآزادی کامتحمل نہیں ہوسکتا،جس طرح ملکوں کے بارڈرز ہیں،اس طرح ہماری شخصی آزادی کی بھی کچھ حدود مقرر ہیں۔جہاں سے ایک شہری کی ناک شروع ہوگی وہاں دوسرے کی آزادی ختم ہوجائے گی۔جوگمراہ،آوارہ اوراوباش عناصردن رات سوشل میڈیا پردندناتے اور بڑبڑاتے ہیں وہ یادرکھیں زیادہ بولنا زیادہ غلطیوں اورتلخیوں کاسبب بنتا ہے۔ مستندمعلومات کے بغیر مختلف حساس موضوعات پر تبصرہ،عدم برداشت کامظاہرہ جبکہ ریاست کیخلاف نفرت کااظہاریاریاستی عہدیداروں پر بیجا تنقیدکرنا ہرگز آزادی اظہار نہیں ۔ کوئی فردیاطبقہ آزادی اظہار کی آڑ میں دوسروں کی دل آزاری کاحق نہیں رکھتا ۔ میں بحیثیت مسلمان ’’ بول کہ لب ہیں آزاد تیرے ‘‘کاہرگزحامی نہیں،میں سمجھتا ہوں ہمیں ایک مہذب انسان کی حیثیت سے ’’ تولنا اورپھربولنا‘‘ہوگا۔جہاں ہمارے کئی بنیادی حقوق ہیں وہاں فطرت اورہماری ریاست نے ہمارا ہرایک فرض بھی واضح کردیا ہے،ہمیںاپنے حقوق تک رسائی کیلئے اپنا ہرایک فرض بھی ادا کرناہوگا۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں حاسدین بھی ناقدین بنے ہوئے ہیں لیکن کوئی تنقید سے اپنے حسد کی آگ نہیں بجھاسکتا۔اگر مٹھی بھر حاسد ین کا ’’گرو ‘‘اور ’’گروہ ‘‘پاک فوج کیخلاف بھڑاس نکالتا ہے توالحمدللہ لاہور سے ورلڈ کالمسٹ کلب کے مرکزی وائس چیئرمین ڈاکٹر شوکت ورک اورلندن میں مقیم سمیع اللہ ملک سمیت متعدد زندہ ضمیر کالم نگار جو قلم قبیلے کا ہراول دستہ ہیں ان کاہردوسراکالم اپنے منفرداسلوب کے ساتھ پاکستان اورافواج پاکستان پر گلہائے عقیدت نچھاورکرتا ہے ۔ڈاکٹر شوکت ورک بھرپور استقلال اوراستدلال کے ساتھ اپنی محبوب ریاست کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت جبکہ اس کے دفاعی اورحساس اداروں کی وکالت کرتے ہیں۔
باب العلم حضرت علی ؓ کاقول ہے’’ لفظ انسان کے غلام ہوتے ہیں لیکن زبان سے ادا ہونے کے بعد انسان اپنے الفاظ کا غلام بن جاتا ہے‘‘ ۔ زبان دراز اپنی زبانوں کولگام دیں ورنہ سچے پاکستانیوں کو ریاست کیخلاف بک بک کرنیوالی زبانیں اورلگامیں کھینچنا آتی ہیں۔یقینا پاکستان کاکوئی خیرخواہ افواج پاکستان کابدخواہ نہیں ہوسکتالہٰذاء محبان پاکستان نے سوشل میڈیا پربھی ان بدخواہوں اوربدروحوں کامحاسبہ شروع کردیا ہے۔ باشعوراورغیورعوا م اپنی ریاست اوراپنے قابل رشک دفاعی اورحساس’’ اداروں‘‘ کیخلاف مٹھی بھر مردہ ضمیر عناصر کے مذموم اور منفیـ’’ ارادوں‘‘ کوہرگز کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔جوبے لگام اوربدزبان بہتان لگاتے ہوئے پاکستان اورافواج پاکستان کے وجود پرزخم لگانے کی مذموم جسارت کرے گاعوام وہ زبان کاٹ دیں گے۔دشمن کے وظیفہ خور اورنمک خواریادرکھیں،پاکستان کے عوام اورافوج پاکستان مدمقابل نہیں بلکہ بھرپورانداز سے متحد ہونے کے ساتھ ساتھ اہم قومی ایشوز پرپوری طرح متفق ہیں۔ دشمنان وطن کیلئے پاکستان کا ہرنڈر سپہ سالار ایک سیسہ پلائی دیوارہونے کے ساتھ ساتھ اپنے ہم وطنوں کیلئے سرمایہ افتخار ہے۔ جنرل(ر) محمد ایوب خان سے جنرل (ر) راحیل شریف، جنرل (ر) قمرجاویدباجوہ اورپرعزم جنرل سیّد عاصم منیر تک پاک فوج کے ہرپرجوش اورپروفیشنل سپہ سالار نے پاکستان کے دفاع کی مضبوطی کیلئے پاک فوج کو دشمن کی ہرمہم جوئی اوردروغ گوئی کوکامیابی کے ساتھ کائونٹر کرنے کیلئے اس کے مختلف شعبہ جات کو مزید مضبوط ،مربوط ، مستعد اورمنظم جبکہ اپنے جانبازوں کامورال کوہ ہمالیہ سے زیادہ بلند کیا۔راقم کی اس بات پرغورکریں اوریادرکھیںپاکستان کی ایٹمی طاقت بھی پاک فوج کی مرہون منت ہے،سیاستدانوں اور ایٹمی سائنسدانوں سمیت مختلف ماہرین کی محنت اور مہارت کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن اگر ہر عہد کے سپہ سالار کی قیادت میںہماری طاقتور فوج اس حساس پروگرام کی پیشہ ورانہ انداز سے بھرپور حفاظت کے ساتھ ساتھ رازداری یقینی نہ بناتی تودس ہزار ذوالفقار علی بھٹو،بیس ہزارڈاکٹر ثمر مبارک منداورپچاس ہزار ڈاکٹر اے کیوخان اس اہم ترین قومی مشن میں ہرگز کامیاب نہ ہوتے۔پاکستان کوایٹمی طاقت بنانے پرکسی فرد واحد کومحسن پاکستان کہنا ہرگز درست نہیں ،راقم کے نزدیک پاک فوج کے مختلف لیکن مخلص سپہ سالار’’ محسن پاکستان‘‘ہیں جو ایٹمی پروگرام کے آغاز سے انجام تک اس کاپہرہ دیتے ہیں۔پاک فوج اوراس کے کسی آفیسر کی پاکستانیت اورپیشہ ورانہ صلاحیت پر شبہ نہیں کیا جاسکتا۔17اگست1988ء کوجنرل ضیاء الحق اورجنرل اخترعبدالرحمن دونوں کوایک ساتھ جس طرح منظرسے ہٹایاگیا اور اس سازش میں کس کاہاتھ تھا،اُس ریاست کانام ہر کوئی جانتا ہے۔امریکا بھی پرویزمشرف سے ناخوش تھاکیونکہ وہ واشنگٹن کی ڈکٹیشن کوہوامیں اڑادیاکرتے تھے۔پاک فوج میں ہونیوالی ہر آئینی تبدیلی کا فیصلہ سوفیصد پاکستان کے اندرہوتا ہے،کوئی دوسری ریاست مداخلت کاتصور بھی نہیں کرسکتی ۔پاکستان اورافواج پاکستان کے بارے میں مخصوص پاکستانیوں کو اپنے متعدد خودساختہ تاثر نابودکرناہوں گے۔
پاک فوج کے نیک نام اورنیک نیت لیفٹیننٹ جنرل (ر)غلام مصطفی نے بحیثیت CGS جاندار اورشاندار اندازسے خدمات انجام دی ہیں۔ان کے بعد پاک فوج میں آنیوالے انہیں اپنے منفر کام سے متاثر کرنیوالے جرنیل کی حیثیت سے ہمیشہ یادرکھیں گے۔ ریٹائرمنٹ کے کئی برسوں بعد بھی انہیں ان کی قابلیت ،قیادت اور کمٹمنٹ کے سبب افواج پاکستان میں بیحد قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ آج بھی ایک زمانہ ان کی فرض شناسی اورنبض شناسی کا مداح ہے۔انہوں نے اپنی پیشہ ورانہ اورقائدانہ صلاحیت سے متعدد محاذوں پرکامیابی کے جھنڈے گاڑے تھے۔لیفٹیننٹ جنرل (ر)غلام مصطفی کو ان دنوں مختلف ٹی وی ٹاک شوز میں بحیثیت دفاعی تجزیہ کارمادروطن پاکستان اورافواج پاکستان کاروشن چہرہ پیش کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے، ہمو طن ان کی اسلامیت اور پاکستانیت پررشک کرتے ہیں ۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر)غلام مصطفی کاشماران پروفیشنل اور آئیڈیل آفیسرز میں ہوتاتھا جو ریٹائرمنٹ کی صورت میں بظاہر پاک فوج سے نکل جاتے ہیں لیکن زندگی بھر پاک فوج ان کے اندر سے نہیں نکلتی ۔(جاری ہے)