سرمائے سے ہوتا ہے حیاتی کا گزارا
تحریر: خالد غورغشتی
مُفلسی جب چہار سُو اپنے خون خوار پر بچھا لیتی ہے، نا امیدی ایسے میں سَانپ بن کر ڈسنے لگتی ہے۔ اپنوں اور غیروں کی ہر بات دل خراش لگنے لگتی ہے۔ دل و دماغ کے آنگن میں اُداسیوں کی کالی آندھی چھانے لگتی ہے۔
ہزاروں خواہشیں اپنے وجود میں رہ کر روگ بن کر مرجھانے لگتی ہیں۔ ہر بات سے مایوسی جھلکنے لگتی ہے، احباب کی ہر ادا کرب بن کر چبھنے لگتی ہے۔ حوصلے اور دلاسے محض خود ساختہ فلسفہ معلوم ہونے لگتے ہیں۔
ایسے لاکھوں وجود میں نے اپنے اِرد گِرد دیکھے ہیں جن کو کسی کی خوشی عزیز ہوتی ہے اور نہ غم۔ وہ بوجھل وجود کو کُوستے ہوئے، بے معنی زندگی گزارتے چلے جاتے ہیں۔
ان کی اُداس اداؤں کے سبب اپنے پرائے، دوست احباب سبھی ایک ایک کر کے روٹھتے چلے جاتے ہیں۔ یوں ان کی زندگی مزید مایوسیوں کی گُم نام وادیوں میں بھٹکنے لگتی ہے۔ وہ ایسے بوجھل وجود سے جیتے ہیں کہ اُنھیں جینے کی خواہش ہوتی ہے نہ مرنے کی فکر۔
وہ ایسے معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں جہاں ہر طرف خوش بختیاں راج کرتی ہیں۔ دولت، مستیاں اور عیاشیاں لوگوں کے گھروں پر چوبیس گھنٹے دستک دیتی ہیں۔ ایسے میں وہ اُنھیں دیکھ دیکھ خود کو کوستے رہتے ہیں، عمر بھر نہ انھوں نے اور نہ ان کے والدین نے کبھی بنیادی ضروریاتِ زندگی کی سہولیات دیکھی ہوتی ہیں۔ وہ چاہتے ہوئے بھی کئی بار زندگی میں خوشیوں کا رنگ نہیں بھر سکتے۔
اس دور میں دولت دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے اور غربت سے بڑھ کر کوئی مُصیبت نہیں۔
ہم جتنے مرضی لوگوں کو دلائل دیں۔ آخرت کے معاملے میں ڈرائیں مگر پیٹ کی بھوک تو جہنم کی آگ ہی بھر سکتی ہے۔
جب یہ بھوکا ہو تو انسان ہر مصیبت اپنے گلے ڈال سکتا ہے۔ اگر ہمارے سماج میں لوگوں کو باعزت و باوقار طریقے سے دو وقت کی روٹی ملتی تو آج اتنے جرائم پیشہ لوگ نہ ہوتے۔ بلاشبہ ہر شخص لالچی نہ ہوتا، لیکن فی زمانہ پیسے کے بغیر بھی زندگی کا پہیہ نہیں چل سکتا۔
مذکورہ بالا مَحرومیاں جب مُسلسل کسی زندہ رُوح میں گُھومتی ہیں تو وہ زندگی بھر کےلیے بے حِسی و بے بسی کا ڈھانچہ بن جاتی ہے یا خود کشی کرکے اپنے قیمتی وجود کو مسمار کر لیتی ہے۔
اے مسلمانوں مساجد و مدارس اور فلاحی ادارے خوب بناؤ اور ان کے ساتھ تعاون بھی خوب کرو، مگر کل قیامت کے دن تم سے اپنے اردگرد کے چالیس گھروں کی بھوک پیاس کے بارے میں بھی ضرور پوچھا جائے گا۔