ایک گاوں ایک پراڈکٹ
تحریر ؛۔ جاویدایازخان
میرے بہت ہی قابل احترام بڑے بھائی اور ڈیجیٹل پاکستان کے بانی سید عمار حسین جعفری سابق ڈائریکٹرایف آئی اےہیں اور جو انسداد سائبر کرائم اور سیکورٹی کے حوالے سے بھی پاکستان کی پہچان بن چکے ہیں ان کی ماہرانہ راۓاور تجزیہ اکثر پاکستانی میڈیا چینلز پر دیکھنے اور سننے کا موقع ملتا ہے اور آجکل پاکستان سوشل ایسوسی ایشن کے مرکزی صدر بھی ہیں ان کی پاکستان کے لیے خدمات قابل تحسین ہیں ۔وہ آجکل بیرون ملک دورے پر ہیں انہوں نے ایک تجویذ دی ہے کہ پوری دنیا کی طرح وہ پاکستان میں بھی “ایک گاوں ایک پراڈکٹ ” نام پر پاکستان سوشل ایسوسی ایشن کے تحت “ایک گاوں ایک پراڈکٹ ” کے لیے کام کا آغاز کرنے کی خواہش رکھتے ہیں ۔پاکستان میں موجودہ بےروزگاری اور غربت کو دیکھتے ہوے ٔ یہ بڑا احسن قدم ثابت ہو گا ۔جو میں ان کا اشارہ سمجھا ہوں ان کی خواہش یہ ہے کہ ہر علاقے کی ایک مخصوص شناخت اور خاص پراڈکٹ ضرور ہوتی ہے جو دنیا بھر میں منفرد مقام رکھتی ہیں گھریلو ہینڈی کرافٹس کی دنیا بھر میں پذیرائی دیکھنے میں آرہی ہے ۔گھریلو دستکاری کی ان علاقائی مصنوعات کی ناصرف حوصلہ افزائی کی جاے ٔ بلکہ ان مصنوعات کو پوری دنیا میں متعارف بھی کرایا جاے ٔ ۔ اس طرح ایک جانب تو یہ بےروزگاری کے خاتمہ میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں اور دوسری جانب بیرون ملک سے زرمبادلہ کے حصول میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہیں ۔جس کے لیے ہمیں ویلیو ایڈیشن جیسی جدید ٹیکنالوجی اور مہارت کا استعمال کرنا پڑے گا ۔اس سے ہی متعلق میرے دوست طاہر محمود جانباز نے ایک اچھی تحریر “ابھی بھی وقت ہے آئیں اپنی ترجیحات تبدیل کرلیں “کے نام سے بھجوائی تھی کہ ریاست بہاولپور کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ بھیڑیں اور ووُل فیکٹری ہوا کرتی تھی۔ پاکستان کی واحد اور بر صغیر ہند کی دوسری بڑی ووُل فیکٹری بہاولپور شہر میں بہت زور شور سے دن رات کام کیا کرتی تھی ۔افسوس یہ کہ ہم نے وہ بھی تباہ کردیاب شاید اس کے کھنڈر ہی بچے ہیں ۔ آج ہماری بقا پھر بھی اسی طرح کی صنعت کی بحالی میں نظر آتی ہے۔اگر ہم نے دنیا میں باعزت قوم کے طور پر زندہ رہنا ہے تو پھر سے اس پر توجہ دیں ۔ کیونکہ ملک کی ہماری باقی انڈسٹری تباہی سے دوچار ہے اور اب اسکی واپسی کے امکانات بھی نا ممکن تو نہیں مشکل ہوتے جارہے ہیں ۔ انہوں نے ایک مثال دی ہے کہ نیوزی لینڈ میں تعلیم کی شرح 99 فی صد اور جرائم کی شرح صرف 1 فی صد ہے۔ یہ دنیا کا دوسرا کرپشن سے پاک ملک ہے ۔.80 کی دہائی تک یہ کم ترقی یافتہ تھا پھر اس نے زراعت اور مال مویشی کی صنعت کو ترقی کا ذریعہ بنایا ۔۔ آسٹریلیا ، سکاٹ لینڈ ، نیدر لینڈ اور کئی دوسرے مغربی ممالک میں مال مویشی ان کی کمائی کا سب سے اہم ذریعہ بن گئے ہیں ۔ اور آج اسے دنیا کا خوش حال ترین ملک شمار کیا جاتا ہے۔ یہاں ہر ایک انسان سے بھیڑیں 7گنا زیادہ اور گائیں 3 گنا زیادہ ہیں ۔یہ دنیا کو اون فراہم کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے ۔ ہمارے ہاں جو لوگ زراعت اور مال مویشی کے حوالے سے احساس کمتری کے مارے ہوئے ہیں ان کے لیے اور ہماری حکومت کے لیے نیوزی لینڈ ترقی کا شاندار نمونہ ہے ۔لہذا تعلیم کے ساتھ ساتھ مال مویشی کی دیکھ بھال اور زراعت اپنا سر فخر سے بلند کرکے کریں ۔ یہ دنیا کی واحد صنعتیں ہیں جو انسانوں کو دوسروں کا غلام اور نوکر بننے سے بچاتی ہیں ۔ان کی بات میں بڑا وزن ہے کیونکہ بہاولپور کا چولستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے ۔جانوروں کی ایک بڑی تعداد یہاں کے لوگوں کا ذریعہ معاش ہے ۔ڈیری ،پروٹین اور چمڑے کے ساتھ ساتھ بہترین اون یہا ں وافر مقدار میں دستیاب ہوتی ہے ۔مگر اس اون یا وول سے وہ فائدہ نہیں اٹھایا جارہا ہے جو ہمیں اٹھانا چاہیے تھا ۔چولستان میں گھر گھر بننے والے اونی کھیس اور چادریں اپنی بناوٹ اور معیار کے لحاظ سے بہترین ہوتے ہیں مگر ہمارے ہاں “ویلیو ایڈیشن “نام کی کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو ہمارے اس برانڈ کو دنیا میں متعارف کراسکے ۔اس لیے ان کو یہ مصنوعات کوڑیوں کے بھاوُ فروخت کرنا پڑتی ہیں ۔ہمیں یہ سمجھناہوگا کہ “ویلیو ایڈیشن ” دراصل ہے کیا اور اس ے کیسے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے ؟۔مختصرا” اپنے کسی بھی خام مال کو پراسیسنگ اور پیکنگ کرکے اسے مزید کارآمد اور بیں الااقومی معیار کے مطابق ڈھال کر اچھی قیمت وصول کرنے کو معاشیات کی زبان میں “ویلیو اٰڈیشن ” کہتے ہیں ۔آج پوری دنیا یہی طریقہ استعمال کرہی ہے ۔مثلا” ہمارے علاقے میں پیدا ہونے والا “سونجنا “یا تو سبزی کے طور پر پکایا جاتا یا پھر چارے کاکام دیتا ہے جبکہ یہی “سونجنا ” دنیا میں ریفائن کرکے پیکنگ میں ہزاروں روپے فی پونڈ موریگا کے نام سے بک رہا ہے اور اب تو اس کے کیپسول بھی مارکیٹ میں آچکے ہیں ۔جبکہ ویلیوایڈیشن کی سہولت نہ ہونے سے ہمارا زرعی اور معدنی خام مال کوڑیوں کے بھاو بکتا ہے ۔لال نمک پوری دنیا میں کسقدر مہنگا ہے اس کا اندازہ لگانا بڑا مشکل ہے مگر ہم اسے سرخ پتھر سمجھتے ہیں ۔پاکستان کے ہر علاقے کو اللہ نے بےشمار نعمتوں سے نوازہ ہوا ہے جن میں زرعی ،معدنی اور قدرتی مال کی وافر دستیابی کسی نعمت سے کم نہیں ہے ۔پورے پاکستان کے خام مال کا احاطہ کرنا تو مشکل ہے لیکن اگر صرف ریاست بہاولپور پر نظر ڈالی جاے تو احساس ہوتا ہے کہ ہم زرعی اجناس ہی نہیں بلکہ بےشمار معدنیات کی ویلیو ایڈیشن نہیں کر پارہے ہیں یہی وجہ شاید ہماری موجودہ غربت اور بےروزگاری کی ہے ۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ ویلیو ایدیشن کی مہارت ہمارے ہر گاوں سے ایک منفرد پراڈکٹ برآمد کرسکتا ہے ۔آج سے پچاس سال قبل ہمارے علاقے احمدپور شرقیہ کے مٹی کے برتن ،چمرے کے کھوسے ،چولستان کی اونی چادر اور کھیس ،دور دور تک مشہور تھے اور بےشمار لوگ اس فن سے وابستہ تھے ۔اوچشریف کی تختیاں ،پنکھے ،چھابیاں ،ٹھپے والی چادریں ،بیرون ملک سوغات کے طور پر جاتی تھیں ۔چولستان کا معیاری دیسی گھی ،اون ،دودھ ،چمڑا ،اور کھار کہیں اور آج بھی دستیاب نہیں ہے ۔زرعی اعتبار سے بہاولپور کی گندم ، کپاس ،سرسوں کا تیل ،کھل بنولہ ،اپنی مثال آپ ہے ۔کیا وجہ ہے کہ ہمارے ہاں سے بلک میں خریدے گئے سرسوں کے تیل کو لاہور کی فیکڑیاں پیک کرتی ہیں اوراس علاقے کی معیاری کپاس کو کپڑے میں بدلنے والی انڈسٹری دور دراز علاقوں میں قائم ہیں ۔ہمارے علاقے کا معیاری سوہن حلوہ ایک ہزار روپے کلو بکتا ہے یہی جب لاہور ،کراچی اور ملتان میں پیک ہوتا ہے تو قیمت کئی ہزار تک جا پہنچتی ہے ۔بہاولپور کے آم ،فالسے ،کینو ،بیر پھلوں کی صورت ہی فروخت کیوں ہوتے ہیں ؟ ان کے جوس کی فیکڑیاں کیوں یہاں نہیں لگتی ہیں ؟ ۔ہمار پھل ا آم منڈی میں ہزار دوہزار من کے حساب سے ڈھیریوں کی صورت فروخت ہوتا ہے مگر یہی خوبصورت پیکنگ کے ڈبوں میں برانڈ کے اسٹیکر لگا کر دس کلو کا ڈبہ دوہزار میں ہاتھوں ہاتھ بکتا ہے ۔ذرا غور کریں چولستان کا دودھ ،مکھن اور گھی اگر جدید پیکنگ میں دستیاب ہو تو انقلاب آسکتا ہے ۔گندم ،کپاس کا بنولہ جب سیڈ یابیج کا روپ دھارتا ہے تو کتنے گنا قیمت بڑھ جاتی ہے ۔چولستان کی کھار جب کیمکلز میں بدلتی ہے تو کتنی قیمتی ہو جاتی ہے ۔وول اور مویشیوں کی اون جب اونی کپڑوں کی صورت بازار میں آتی ہے تو کتنی مہنگی ہو جاتی ہے ۔ بہاولپور جیولری کندن پوری دنیا میں مشہور ہے یہاں کے کڑھائی شدہ ملبو سات خریدنے بڑی دور دور سے لوگ آتے ہیں ۔آخر ہم ویلیو ایڈیشن کیوں نہیں کر پاتے اور اپنا خام مال اور محنت سستے داموں فروخت کرنے پر کیوں مجبور ہیں ؟میں سید عمار حسین جعفری صاحب اور طاہر محمود جانباز کی سوچ سے متفق ہوں ہر گاوں نہ سہی ہر ہر شہر سے ایک ایک پراڈکٹ ایسا ضرور ہونا چاہیے جیسے سیالکوٹ کے کھیلوں اور سرجری کا ساما ن ،گجرات اور گوجرانوالہ کی سینٹری کا سامان ہے اور جس پر وہاں گھر گھر کام ہوتا ہے ۔ہمیں آج تعلیم کے ساتھ ساتھ ویلیو ایڈیشن کی مہارت درکار ہے اور یہی آج ہماری موجودہ پریشانیوں کا واحد حل ہو سکتا ہے ۔ زراعت کے ساتھ ساتھ پولٹری ۔ڈیری ،کیٹل فارم کی جدت ہی ہمارے بےروزگاری کے مسائل کا حل ہوسکتے ہیں ۔جی ہاں ہمیں اپنی ترجیحات بدلنی ہوں گی ؟ تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر مندی سیکھنا اور جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ویلیو ایدیشن کے فن پر عبور حاصل کرنا ہو گا ۔