مرکزی حکومت اور سیاسی جماعتیں
تحریر: اورنگ زیب اعوان
سیاسی جماعتیں ملک و قوم کو درپیش مسائل کے حل لیے اپنا اپنا منشور ترتیب دیتی ہیں. اور اسی سیاسی منشور کی بنیاد پر الیکشن میں حصہ لیتی ہیں. عوام جس سیاسی جماعت کے منشور کو بہتر سمجھتی ہے. اس کو اپنا قمیتی ووٹ دیکر کامیابی سے ہمکنار کروا دیتی ہے. سیاسی جماعت محض ایک گروہ نہیں. بلکہ عوام کا اعتماد اور امید ہوتی ہے. عوام اپنی منتخب سیاسی جماعت سے امیدیں وابستہ کیے ہوتی ہے. اور سیاسی جماعت بھی ان کی امیدوں پر پورا اترنے کی پوری کوشش کرتی ہے. حالیہ الیکشن میں سیاسی انجینئرنگ کی گئ. اور مرکز میں ایک ایسی حکومت بنا دی گئی. جس کو کوئی سیاسی جماعت قبول نہیں کر رہی. حالانکہ وہ اس کا برائے نام حصہ بھی ہیں. مگر وہ اس مرکزی حکومت کو قبول کرنے کو ہرگز تیار نہیں. پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف سمیت سبھی سیاسی جماعتیں الیکشن میں دھاندلی کا شور کر رہی ہیں. اس کی بنیادی وجہ ہر سیاسی جماعت کے نامور سیاسی لوگوں کی شکست ہے. جن کو وہ کسی صورت قبول کرنے کو تیار نہیں. ان کی جگہ غیرمقبول اور غیر سیاسی لوگوں کو ایوان میں پہنچا دیا گیا ہے. جن کو عوام کو درپیش مسائل کا علم تک نہیں. وہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ نہیں کر پائے گے. کسی بھی حکومت کے لیے وزارت خزانہ اور داخلہ بڑی اہم ہوتیں ہیں. مگر اس حکومت میں یہ دونوں وزارتیں اپنے من پسند لوگوں کو دی گئ ہیں. جن کا سیاست اور عوام سے کوئی تعلق نہیں. ایسی صورتحال میں مرکزی حکومت کے ہاتھ پاؤں باندھ دیئے گئے ہیں. جو حکومت اپنی مرضی سے ترقیاتی منصوبوں کے لیے فنڈ مختص نہ کر سکے. اور نہ ہی اپنی منشاء کے مطابق ملک میں انتظامی امور کی انجام دہی کے لیےافسران کی تعیناتی کر سکے. وہ لنگڑی لولی حکومت کس کام کی. پاکستان پیپلز پارٹی نے صدارت اور چئیرمین سینٹ کا منصب سنبھال لیا ہے. جو کہ انتظامی امور کے لحاظ سے مستقل عہدیں ہیں. اس کے باوجود وہ کہہ رہی ہے. کہ وہ مرکزی حکومت کا حصہ نہیں بنے گی. پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف بھی اس حکومت سازی سے خوش نہیں. ان کا کہنا ہے
کہ ان کی جماعت کے مرکزی قائدین کو کسی کی منشا کے مطابق شکست سے دوچار کیا گیا ہے. تاکہ انہیں وزارت عظمیٰ کی دوڑ سے باہر رکھا جا سکے. بظاہر ایسا لگ بھی رہا ہے. پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف کے قریبی ساتھیوں کو ملک بھر سے ہرا دیا گیا ہے. تاک میاں محمد نواز شریف کے بیانیہ کو کمزور کیا جاسکے. کیونکہ میاں محمد نواز شریف کسی سے سوال پوچھ رہے تھے. کہ ان کی حکومت کو ختم کیوں کیا گیا تھا. اس سوال کےپیچھے میاں محمد نواز شریف کی وہ سوچ عیاں ہوتی ہے. جس سے کچھ حلقے خوف زدہ ہیں. وہ اپنے خلاف ایسے سوال سننا پسند نہیں کرتے. اس لیے انہوں نے میاں محمد نواز شریف کو ملکی سیاست سے دور کرنے کا پختہ ارادہ کیا ہے. مگر یہ اقدام ملک و قوم کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے. میاں محمد نواز شریف ملک پاکستان کی ترقی کے معمار ہے. ان کے بغیر ملک ترقی کی زینہ نہیں چڑھ سکتا. گزشتہ دنوں ملک بھر میں ضمنی انتخابات کا انعقاد کیا گیا. جس میں اکثریت پاکستان مسلم لیگ ن نے حاصل کی. کیونکہ بیشتر ضمنی انتخابات پنجاب میں ہو رہے تھے. اور پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت ہے. وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف نے عوامی خدمت کے لیے متعدد پروگرام تشکیل دیئے ہیں. وہ ان منصوبہ جات کی جلد از جلد تکمیل کے لیے دن رات مصروف عمل ہیں. میاں محمد نواز شریف بھی ان کی رہنمائی فرما رہے ہیں. وہ بھی ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں. بلکہ اکثر و بیشتر وہ وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف کے ہمراہ خود ترقیاتی منصوبوں کا معائنہ کرتے ہیں. اس عوامی خدمت کے جذبہ کی بدولت پنجاب کی عوام بھی ان سے دلی محبت کرتی ہے. حالیہ ضمنی انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن کی کامیابی اس کا منہ بولتا ثبوت ہے. دیگر صوبہ جات میں جن جن سیاسی جماعتوں کی حکومت ہے. انہوں نے بھی وہاں نشتیں جیتی ہیں. سیاست کا بنیادی مقصد عوامی خدمت ہونا چاہیے. جس دن سیاسی جماعتوں نے آپس میں دست و گریبان ہونے کی بجائے. ملک ترقی پر اپنی توجہ مرکوز کر دی . اسی دن ملک کی تقدیر بدل جائے گی. مگر شاید کچھ مقتدر حلقوں کو ملک ترقی سے زیادہ اپنی انا عزیز ہے. جس کو وہ مقدس سمجھتے ہوئے. ملکی مفاد تک کو قربان کر دیتے ہیں. ہمارا کوئی دشمن نہیں. ہم خود اپنے دشمن ہیں. ہم اپنے ذاتی مفادات کے لیے ہر چیز کو قربان کر دیتے ہیں. اسی سوچ نے ہمارے معاشرے کو زوال پذیر کر دیا ہے. اس سبقت بازی کے کھیل نے ملک کا بیڑا غرق کر کے رکھ دیا ہے. آئیں عہد کرے. کہ آپس کے اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے. آگے بڑھ کر ملکی ترقی کے لیے یک جان ہوکر محنت کرے . اسی میں ملک و قوم کی بہتری ہے.