آپ اپنے خاندان کے لیے بہت قیمتی ہیں ؟

47

تحریر ؛۔ جاویدایازخان
چاند رات کی خوشیاں مناتے ہوےبیری والا چوک گوجرانوالہ میں ایک عید اسٹال کے لیے جگہ کلیر کرواتے ہوےایک جھگڑے میں باپ بیٹا قتل ہو گئے ۔خبر کے مطابق اندرون شہر مشہور تجارتی مرکز میں عید اسٹال لگانے کے تنازعہ پر فائرنگ سے باپ بیٹا قتل اور ایک بیٹا گولیاں لگنے سے شدید زخمی ہو گیا ۔یہ ناخوشگوار واقعہ اس وقت پیش آیا جب سب عید کی خوشیاں سجانے اور چاند رات منانے میں مصروف تھے۔ آپس میں راستہ بند کرنے کے معمولی سے جھگڑے نے مخالفین کی جانب سے فائرنگ سے ہنستے بستے گھروں کو آہوں اور سسکیوں میں بدل دیا اور مخالفیں بھی جیل کے سلاخوں کے پیچھے جا پہنچے اور ان کے گھروں میں پل بھر میں صف ماتم بچھ گیا اور پورے شہر کی فضا بھی سوگوار ہو گئی ۔یہ خبر پڑھ کر میں سوچ رہا تھا کہ ہمارے معاشرے ٔ میں خوشی کے موقع پر انسانی جانوں سے کھیلنا کتنا آسان ہو گیا ہے ؟ یہ عد م برداشت ،جارحانہ پن ،لاقانونیت اور غصہ ہماری قوم میں اسقدر بڑھتا چلا جارہا ہے کہ آے دن معمولی معمولی تنازعات پر انسانی خون بہنے لگتا ہے ۔کبھی گاڑیوں کے سڑک پر ٹکرانے یا حادثے کی وجہ سےہم دست وگریباں ہونے میں دیر نہیں لگاتے تو کبھی بچوں کی معمولی لڑائی پر پورا پورا خاندان علاقے کو میدان جنگ بنا دیتا ہے ۔ چند پیسوں کے لین دین پر جھگڑا جانیں لے لیتا ہے ۔کبھی کسی معاملے میں ہماری بڑا بننے کی خواہش مروا دیتی ہے تو کبھی ہم مذہبی اور سیاسی معاملات میں الجھ کر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جاتے ہیں ۔کبھی بلا تحقیق غیرت کے نام پر جذباتی ہو کر خون سے ہاتھ رنگ لیتے ہیں آے دن سوشل میڈیا پر ایسے بےشمار واقعات دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ آخر کیوں اتنی معمولی معمولی باتوں پر ایک انسان کسی دوسرے انسان کی جان لینے کی کوشش کرتا ہے ؟ آخر ہم قانون ہاتھ میں کیوں لے لیتے ہیں ؟ باہمی اتفاق و محبت سے دوری کیوں بڑھتی جارہی ہے ؟ کہتے ہیں کہ کسی بھی معاشرے کی بنیاد جن اہم ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے ان میں اخلاقیات ،برداشت ،رواداری اور محبت بنیادی طور پر شامل ہوتے ہیں جب یہ خصوصیات رفتہ رفتہ معاشرے سے ناپید ہونا شروع ہو جائیں تو پھر اس سماج میں منفی سوچ اور رجحانات بڑھنے شروع ہوجاتے ہیں ۔جو بعض اوقات بڑے المیوں کو جنم دیتے ہیں ۔اگر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اس طرح کے ننانوے فیصد واقعات کے پس پردہ ہمارے عدم برداشت کا رویہ ہی کارفرما ہوتا ہے ۔عدم برداشت کا مطلب ہے کسی بھی شے یا بات کو برداشت کرنے کی صلاحیت میں کمی واقع ہو جانا ۔یہی وہ منفی انسانی رویہ ہے جس سے آج کا انسان دوچار نظر آتا ہے ۔اور یہی منفی رویہ درحقیقت ہماری رواداری ،صبر ،حوصلے ،تحمل اور بردباری جیسی مثبت خوبیوں کو ہم سے دور کرتا چلا جارہا ہے ۔یہی منفی عدم برداشت جب مزید فروغ پاتا ہے تو انتہا پسندی کی راہ ہموار کر دیتا ہے گویا عدم برداشت سے انتہا پسندی جیسی بڑی برائی جنم لیتی ہے ۔انتہا پسندی کی بنیادی وجہ طبقاتی اور ناقص نظام تعلیم کے ساتھ ساتھ حالات ،واقعات اور مثبت تربیت کا فقدان بھی ہوتا ہے ۔یہ بھی کہتے ہیں کہ برداشت کسی بڑی نعمت سے کم نہیں ہوتی اور یہ برداشت کرنے کی صلاحیت اللہ کسی کسی کو ہی دیتا ہے ۔ورنہ ماہرین عمرانیات کے مطابق معاشرےکے نوے فیصد مسائل کی جڑ عدم روداری ہے۔اکثر لوگ اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کو اپنی شان سمجھتے ہیں ۔
اس قدر بڑھ گئی عدم برداشت
خود کو بھی اب نہیں ہیں ہم برداشت
کہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ مختلف رویوں اور الگ الگ سوچ کے امتزاج سے تشکیل پاتاہے یہ مختلف رنگوں سے بننے والی قوس وقزح کی مانند خوبصورت ہوتا ہے جسے ہم اپنے انفرادی اور اجتماعی رویوں سے تعمیر کرتے ہیں ۔ معاشرے کی بقا اور فروغ انسانی اتحاد اور اتفاق کے رویوں میں پوشیدہ ہوتا ہے جو قوموں کو مہذب بناتا ہے ۔جبکہ عدم برداشت بھی ہمارے انہیں رویوں میں سے ایک رویہ ہی ہوتا ہے مگر یہ معاشرے کا نہایت منفی پہلو سمجھا جاتا ہے ۔،معاشرے میں بڑھتے ہوے عدم برداشت کی یوں تو بہت سی وجوہات ہوتی ہیں ۔لیکن ان میں سب سے پہلی اور بنیادی وجہ اپنے دین سے دوری ہے۔ نوجوان نسل دین کی بنیادی تعلیم سے بےبہرہ ہو تو اس میں خود پسندی ،حسد ،جلد بازی ،اسراف اور دوسروں کی تحقیر سمیت لاتعداد روحانی امراض جنم لینے لگتے ہیں ۔یہ تمام امراض عدم برداشت کی اصل وجہ اور جڑ بنتے جارہے ہیں ۔ہمارے معاشرے میں عبادات ،نیکی ،اچھائی ، اور بھلائی کرنے کی بات تو بہت کی جاتی ہے مگر برائی سے روکنے اور برائی سے باز آنے پر توجہ نہیں دی جاتی ۔آج ہمارے معاشرے میں عبادات اور نیکیوں کا پرچار تو کیا جاتا ہے لیکن آپس کے معاملات کی اہمیت اور تربیت اس طرح سے نہیں کی جاتی جو اس کا حق ہے ۔یہی وجہ ہے کہ انفرادی طور پر اپنی سوچ اور اپنے رویے کو دوسروں کی سوچ اور رویے سے بہتر سمجھا جاتا ہے اور اپنی ذات کو عقل کل تصور کیا جاتا ہے ۔دوسرے کے موقف کو سننا بھی گوارہ نہیں کیا جاتا اور نہ ہی اپنی سوچ کے خلاف بات برداشت کی جاتی ہے ۔جبکہ برادشت کی مثبت روایت ہمیشہ معاشرے کے امن و سلامتی کی علامت سمجھی جاتی ہے ۔
یہ عدم برداشت کی بڑھتی کیفیت اب انفرادی طور پر ہی نہیں بلکہ اجتماعی طور پر بھی دیکھنے میں آرہی ہے معاشرے میں پھیلا انتشار ،بدعنوانی ،معاشرتی استحصال ،شدت پسندی اور لاقانونیت ہماری قوم میں سریت کرتا چلا جارہا ہے ۔ انصاف کے حصول میں روکاوٹ اور اس سے بڑھتی ناامیدی بھی ایک بڑی وجہ ہے ۔دیکھا جاے تو ملکی سطح پر سیاسی عدم استحکام کی واحد وجہ بھی ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنا ہے ہم نے لوگوں کے نظریات کا احترام کرنا چھوڑ دیا ہے اور دوسروں پر اپنی مرضی ،سوچ ،عقائد اور رویے مسلط کرنا چاہتے ہیں ۔عدم برداشت کا فوری حل نہ کیا گیا تو یہ ناجانے کتنی زندگیوں کی تباہی کا باعث بن جاۓ گا ۔اسکے حل سے قبل اس کی وجوہات جاننا بےحد ضروری ہے ۔تعلیم کی کمی اور مذہب سے دوری کے بعد ایک بڑی وجہ انسانوں کے درمیان مقابلہ بازی ، حسد و جلن ،حرص وہوس کی بڑھتی ہوئی عادت ،غربت ،ناخواندگی ،بےروزگاری ،بدامنی ،سفارش اور رشوت کی فراونی ،صحت کی سہولیات کا فقدان بھی ہے ۔ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی ہوش رباء مہنگائی اور بےروزگاری کی جنجھلاہٹ بھی عدم برداشت کی وجہ بن رہی ہے ۔مہنگائی سے بڑھتی گھریلو پریشانیاں اور مسائل عدم برداشت میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں ۔ ، بڑھتی ہوئی طبقاتی تقسیم نے اس عدم برداشت کو مزید ہوا دی ہے جبکہ قناعت پسندی کا فقدان بھی ایک بڑی وجہ کے طور پر سامنے آرہا ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم انفرادی طور پر اپنے اندر برداشت کا مادہ پیدا کرلیں تو صورتحال میں بہتری ممکن ہو سکتی ہے انفرادی عمل ہمیشہ اجتماعی تبدیلی کا باعث بنتا ہے ہمیں چاہیے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر بہتری کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کریں تاکہ ہمارا معاشرہ امن وسلامتی کی راہ پر گامزن ہو سکے جسکے کے لیے ہمیں اعلیٰ اخلاقی اقدار کو فروغ دینے اور ایک دوسرے کا احترام کرنے کے راستے کا انتخاب کرنا ہوگا ۔ایسے واقعات سے بچنے کے لیے ہمیں عام زندگی میں انفرادی طور پر کچھ اچھے طرز عمل اپنانے کی ضرورت ہے ۔ مثلا” روڈ یا سڑک کے حادثات کی صورت میں جذبات پر قابو رکھیں اگر قصور آپ کا نہ بھی ہو تو بڑا پن دکھاتے ہوے معافی مانگیں اور گھر آجائیں ۔آپس میں غیر ضروری لین دین سے پرہیز کریں اور چند پیسوں کے لیے آپس میں جھگڑے سے بچیں ۔بچے تو بچے ہوتے ہیں سب کے سانجھے ہوتے ہیں ان کی لڑائیوں میں خود کو نہ گھسٹیں خود بچے نہ بنیں بلکہ بڑے ہونے کا ثبوت دیں ۔کسی کے بھی معاملے میں غیر ضروری دخل اندازی سے پرہیز کریں کسی کے معاملات میں بڑا بننے کی کوشش نہ کریں لوگوں کو اپنے مسائل خود حل کرنے کا موقع دیں ۔کسی سے مذہبی و سیاسی معاملات پر بحث نہ کریں اپنے عقائد اور نظریات اپنے تک محدود رکھیں اور کسی کے عقائد و نظریات پر بےجا تنقید سے پرہیز کریں ۔آپ کی ایک منٹ کی برداشت آپکی عمر بھر کی خوشیوں کی ضامن ہو سکتی ہے ۔یاد رکھیں کہ آپ اپنی فیملی اور خاندان کے لیے بے اہم اور قیمتی ہیں ۔آپکی کمی کسی صورت پوری نہیں کی جاسکتی اس لیے اپنی ذات کی حفاظت کرنا آپ پر فرض ہے ۔آپ اپنا یہ فرض صرف اپنی برداشت ،تحمل اور بردباری کے ذریعے سے ہی ادا کر سکتے ہیں ۔یہ ہمارا اخلاقی ،انسانی اور مذہبی فریضہ ہے ۔واصف علی واصف فرماتے ہیں “آپ برداشت کرنا سیکھ جاو ٔ اور معاف کرنا سیکھ لو تو ڈپریشن ختم ہو جاے گا ” ذرا سوچیے کہ عدم برداشت کی آپکی ایک ذراسی غلطی آپکے اور آپ کے خاندان کے لیے کتنے بڑے المیہ کا باعث بن سکتی ہے ؟

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.