شدت پسندی

92


جیسا کہ نام سے واضح ہے کہ شدت پسندی چاہے وہ کسی بھی تناظر میں ہو منفی یا مثبت ایک حد سے زیادہ نقصان دے ہی ثابت ہوتی ہے
منفی اثرات میں تو شدت پسندی کے نتائج بہت ہی نقصان دہ واقع ہوئے ہیں لیکن روز مرہ مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ پاکستانی عوام خاص کر پاکستانی مسلمز میں یہ شدت دن بدن بڑھتی جا رہی ہے
بنا سوچے سمجھے اور بنا کچھ جانے یہ قوم یہ عوام اتنی شدت پسند ہو گئی ہے کہ میں تو یہ سمجھتی ہوں کہ یہ شدت پسندی کم اور جہالت زیادہ ہے۔
دنیا جتنی ترقی کرتی جا رہی ہے یہ قوم اتنی ہی جہل ہوتی جا رہی ہے کیونکہ کہنے کو لاکھوں روپے کے عوض خریدی اور حاصل کی گئی ڈگریاں ان کے ہاتھوں میں ہیں لیکن کاش یہ ہاتھوں کی بجائے شعور میں بھری ہوتی عقل سے برتی ہوتی صبر و تحمل اور برداشت و دانش کی امین ہوتی لیکن اس میں ان کا بھی کیا قصور آدھی عوام کو تو بس اتنی سمجھ ہے کہ زندگی کا مقصد تین وقت کا کھانا اور اس کھانے کے لیے صبح سے شام تک تردد کرنا ہے اور رات کو سو جانے کے بعد صبح پھر وہی سوچنا اور وہی کرنا ہے باقی جو بچ گئے ان کو غیر ملکی زبان رٹنے اور سیکھنے پہ لگایا ہوا ہے جس میں نہ ان کی کوئی سمجھ آتی ہے اور نہ کوئی زندگی کا مقصد ہے تعلیم بلکہ اعلی تعلیم تو حاصل کی جاتی ہے مگر لارڈ مکالے کے کہ اس نظریے کے تحت “میں نے پورے بر صغیر کا سفر کیا ہے اور میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہم اس وقت تک برصغیر پاک و ہند کو فتح نہیں کر سکتے جب تک ان لوگوں کو ان کی ثقافت آبااجداد کے کارناموں اور ان کی تاریخ سے دور نہ کر دیا جائے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم ان کا تعلیمی نظام بدل دے اس سے یہ قوم خود کو کم تر اور ہمیں برتر سمجھے گی 2 فروری 1835″۔
اور اس اعلی تعلیم میں کہیں بھی انسانیت مذہب مقصد حیات سزا و جزا دانش و شعور نہیں صرف تعلیم برائے ملازمت ملازمت برائے معاشیات معاشیات برائے سٹیٹس سٹیٹس برائے تکبر اور تکبر برائے میں” حاصل کیا جاتا ہے اور کچھ نہیں سو ہمیں ضرورت ہے یہ پورا نظام تبدیل کرنے کی اور یہ کام ہمیں اشرفیہ یا حکمرانوں پر نہیں چھوڑنا کیونکہ یہ انہوں نے نہیں کرنا یہ کام ہم کریں گے یعنی عوام لوگ جوان اور والدین پاکستان کی بقا کے لیے اسلام کی بقا کے لیے ہمیں خود کو بدلنا ہوگا اپنی سوچوں کو بدلنا ہوگا پھر ہی ہم اس جہالت کے اندھیرے سے نکل سکیں گے ابھی پچھلے ایک دو سالوں میں ہمارے سامنے ایسے بہت سے واقعات آچکے ہیں جو ہماری جہالت کا ثبوت ہے اب مزید کی ضرورت باقی نہیں اور شدت پسندی کے بہت سے واقعات بھی ہمارے سامنے ہے جس سے ثابت ہوتا ہے اس قوم نے خود کو خود ہی نقصان پہنچایا اور ابھی کچھ روز پہلے حلوہ خاتون والا واقعہ اور آئے روز بڑھتے ایسے بہت سے واقعات اگر ہم خود کو مسلمان کہتے ہیں اور خود کو پڑھے لکھے تصور کرتے ہیں تو پھر اتنی جہالت بھری حرکتیں کیا کوئی باہر سے آ کے کرتے ہیں یا پھر ہمارے تعلیمی نظام میں ہمیں ایسا کچھ پڑھایا سکھایا یہ بتایا نہیں جاتا یا پھر انگریزی زبان سیکھتے سیکھتے یہ بھول گئے ہیں کہ دنیا میں اور بھی بہت سی زبانیں ہیں اور عربی زبان بھی انہی میں سے ہے قران پاک کی زبان ہونے کے ناطے یہ بہت قابل احترام زبان سہی لیکن میرے خیال میں وقت آگیا ہے کہ اس جذباتی اور شدت پسند عوام کو شعور دینا بہت ضروری ہو گیا ہے۔ اور معاشرتی شعور کے لیے سزا اور جزا کو یقینی بنانا ہوگا یہ وقت کا تقاضہ ہے کسی کو کوئی حق نہیں کہ وہ کسی کو بلاوجہ حراساں کرے شدت پسندی ایک شخص کو نہیں پوری پوری بستیاں اور قومیں جلا کے رکھ کر دیتی ہے اور اس پاکستانی قوم کو تو ویسے ہی وقت حالات اور حکمرانوں نے کب سے کھجور سے لٹکا رکھا ہے اب مزید اپنی شدت پسندی کے ہاتھوں خود کو نہ جلائے تو بہتر ہے۔
تقلید میں کامیاب ہونے سے اصلیت میں ناکام ہونا بہتر ہے۔(ہرمن میلویل)

سجل ملک راولپنڈی اسلام اباد

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.