اجاغ میں پڑی ہے راکھ

47

آفتاب خان سے میری پرانی دوستی ھے۔برسوں پہلے جب میں نے والد محترم شاعر درویش ،مصور احساس بشیر رحمانی کی ھمراھی میں لاھور کینٹ کے مشاعروں میں جانا شروع کیا
تو وھاں سینئر شاعروں میں میری ملاقات جناب شہزاد احمد،جناب اختر رومانی،جناب عبد الحکیم وفا،جناب علامہ بشیر رزمی،جناب رشک خلیلی،جناب صابر جالندھری ،جناب ولی ھمزہ نازش ، جناب احسان اللہ ثاقب اور دلوں میں گھر کر جانے والے اظہار شاہین سے ھوئی۔
اپنے ھم عصروں میں مجھے جاوید قاسم،فیصل حنیف،آصف نظیر،مقصود حسین عامر،آفاق انجم،رضا عباس رضا،ساحل ھاشمی، اور آفتاب خان کی رفاقتیں اور محبتیں میسر آئیں۔
آفتاب خان علامہ بشیر رزمی کے ہونہار اور قابل ذکر شاگردوں میں سے ایک ھے۔ایک عمدہ شاعر ھونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک نرم لہجے میں گفتگو کرنے والے خوبصورت انسان بھی ھے۔
آفتاب خان کا عروضی مطالعہ بھی بہت وسیع ھے۔یوں اس نے حقیقی معنوں میں علامہ بشیر رزمی کے قابل فخر شاگرد ھونے کا حق ادا کر دیا ھے۔آفتاب خان کا شعری مجموعہ ،شام شائع ھو کر پذیرائی حاصل کر چکا ھے۔
اس کے علاؤہ اس کی کتاب ،اردو فلمی شاعری کا عروضی تجزیہ بھی شائع ھو کر شہرت حاصل کر چکی ھے۔
آفتاب کی نئی شعری کاوش ،اجاغ میں پڑی ھے راکھ چند ماہ قبل منظر عام پر آئی ھے۔کتاب کا نام اپنے اندر گہری معنویت رکھتا ھے۔اجاغ آتش دان کو کہتے ھیں ،جس میں نہ جانے کتنے دکھ درد اور یادیں جلتے جلتے راکھ ھو جاتی ھیں۔دوسرے معنوں میں یہ عشق کی آگ بھی ھے،جس میں ھر کوئی راکھ ھو جاتا ھے۔
آفتاب نے بھی اپنی کتاب میں بہت سے غموں،دکھوں ،تلخیوں اور سسکیوں کو سمیٹ کر شعری زبان میں ھمارے سامنے پیش کیا ھے۔آفتاب خان کی شاعری میں کرب بھی ھے اور حوصلہ مندی کے ساتھ جینے کا درس بھی ھے۔
بقول علامہ بشیر رزمی،،ھوا جب بند ھوتی ھے تو پھر اس کے بعد آندھی آنا ضروری ھے
یا یوں کہئے کہ اگر آفتاب خان کا شعری دریا آھستہ آھستہ ایک خوش رفتار موج پہلو بہ پہلو لئے بہنے کو تیار ھے نہ جانے کتنے دلوں کی کھیتاں سیراب و شاداب کر گذرے،،
علامہ صاحب کی یہ قیمتی رائے آج سچ ثابت ھو رھی ھے اور آفتاب خان نے نئے شعری تجربات سے گذرتا ھوا دلوں کی کھیتیاں سیراب و شاداب کر رھا ھے۔
اب وہ ایک سنجیدہ فکر شاعر کے روپ میں ھمارے سامنے ھے۔جس نے شام سے صبح تک کا سفر اجاغ میں پڑی ھے راکھ کی صورت مکمل کر لیا ھے۔
بقول شفیق سلیمی،،آفتاب خان ایک سنجیدہ نوجوان ھے۔اس نے شاعری کو بھی پوری سنجیدگی سے لیا ھے۔شاعری پر اس کی فنی گرفت مضبوط ھے،،
سلیمی صاحب کی اس رائے کی روشنی میں آفتاب خان کے شعری سفر کو دیکھا جائے تو ھمیں اس کے ھاں روایت اور جدت کا حسین سنگم دکھائی دیتا ھے۔
اس کے ھاں موضوعات کی روانی کے علاؤہ مضبوط اور پختہ مصرعے موجود ھیں،جنھیں وہ اپنی شاعری میں سموتا چلا جا رھا ھے۔بقول نعمان منظور،،وہ مصرعے تراشنے کی فنی صلاحیتوں سے مالا مال ھیں۔
ان کا تنقیدی شعور اور مشاھدہ ھی درحقیقت ان کی شاعری کی بنیاد بھی ھے اور موضوع بھی۔یہی منفرد ذائقہ انھیں شعراء میں ممتاز کرتا ھے،،
آفتاب خان کی تنقیدی شعور بخشنے میں ان کی نثری کاوشوں نے بھر پور کردار ادا کیا ھے
،وہ ایک عرصے میں ماھنامہ تخلیق میں کتب پر عمدہ انداز میں اپنی رائے کا اظہار کر رھے ھیں ۔
آفتاب خان نے اپنی اس کتاب کا انتساب میر و غالب،اقبال و فیض اور اپنے استاد علامہ بشیر رزمی کے نام کیا ھے۔اردو کے دیو قامت شعراء کے ساتھ اپنے استاد کو خراج تحسین پیش کرنا ان کی سعادت مندی ھی نہیں فرض بھی تھا ۔علامہ صاحب فکری و فنی حوالوں سے غیر معمولی صلاحیتیں رکھتے تھے۔
کتاب کے آغاز کے صفحات میں خوبصورت حمد و نعت جگمگا رھی ھیں۔جس کے بعد غزلوں کا آغاز ھوتا ھے۔آفتاب بنیادی طور پر غزل کے شاعر ھیں۔ان کی غزل نئے اور آفاقی رنگ ھیں۔کچھ نئی بحروں میں بھی غزلیں کہی گئی ھیں،جو قابل قدر اور منفرد کام ھے۔آفتاب خان کی اس کتاب میں معروف علمی و ادبی شخصیات کی آراء شامل ھیں،جنھوں نے آفتاب کو بھر پور انداز میں خراج تحسین پیش کیا ھے۔میں بھی آفتاب خان کو اپنی طرف سے اس مجموعے کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتے ھوئے اس کی شعری مہارت اور تخلیقی ھنر مندی کا اعتراف کرتا ھوں۔آخر میں چند شعر آپ کی نذر ھیں۔۔۔۔۔
کھڑا ھوں حشر کے میدان میں ھاتھ باندھ کے میں
اے کاش میری بھی جنت حدود ھو جائے

کوئی بتا دے فرشتوں کو آدمی کا مقام
یہ ایڑیوں سے بھی زم زم نکال سکتا ھے

ملتا ھے لطف صرف مجھے حمد و نعت سے
دل جھومتا ھے آپ کے نعلین چوم کر

اک دوسرے کی ذات میں پیوست ھو گئے
ھم دونوں ھم خیال ھیں دل کےامور میں

کاغذ پہ کچھ درخت ابھارے تمام شب
آئے ھیں کس طرف سے پرندے خیال کے

روبرو۔۔۔۔محمد نوید مرزا

11/03/24

https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/03/p3-7-1-scaled.jpg

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.