جو قومیں اپنی تاریخ فراموش کر دیتی ہیں تاریخ انہیں فراموش کر دیتی ہے جس قوم کو بھی تاریخ میں کمال و عروج حاصل ہوا ہے اور جو قوم بھی پائیدار نقش تاریخ کے صحرا میں ثبت کرتی ہے
اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مقصد سے عشق رکھتی ہو اس کے سامنے کوئی نصب العین ہو وہ عزم کی صفت سے متصف ہو اور وہ انسانیت کے لیے نفع بخش کام کریں وہ دنیا میں اوپر اٹھتیں اور عزت پاتی ہیں
جو قوم وقت کی قدر نہیں کرتی اور اس میں نظم و ضبط کا فقدان ہو اس قوم کا ترقی کرنا مشکل ہے جو قوم عقل و فکر سے کام لیتی ہے اور تحقیق انکشاف کی راہ پر پیش قدمی کرتی ہے وہی عظمت کی حقدار ٹھہرتی ہے
ڈاکٹر فیاض احمد رانجھا کا نظریہ اور ذریعہ صرف اور صرف خدمت انسانی کی بقا میں پنہاں ہے
اپ کے ہاتھ میں شفا اور انکھ میں حیا اور دل میں ایمان کی حلاوت ماتھے کی شکنوں میں رات کے پچھلے پہر کے مد بھرے گیت یہ ہیں جناب فیاض احمد رانجھا جن کو دیکھ کر اللہ یاد اتا ہے ۔
انسانیت سے بے پناہ محبت کرنے والے تمام مسیحاؤں سے اپ نے ملاقات کروائی اور ہماری خوشبو کے طرح پذیرائی کی۔ ہمارے ملک کے ہر دل عزیز غلام حیدر مارتھ جو محکمہ پولیس کی کلیدی اسامیوں پر تعینات رہے ہیں ۔
اپ نے انسانیت سے محبت کی ہے
اپ کو جرم سے نفرت رہی ہے مجرم سے نہیں اپ نے بے شمار مجرموں کو راہ راست پر لا کر ان کو معاشرے کا کامیاب شہری بنایا تاریخ کے اوراق اٹے پڑے ہیں کہ اپ کا وجود محکمہ پولیس کے لیے ہمیشہ ایک روشن چراغ کی حیثیت رکھتا ہے
اور اج بھی ان کو جب فری کرم میں دیکھا تو دل سے دعا نکلی کہ ایسے لوگ ابھی ہمارے معاشرے میں موجود ہیں
جناب احمد سلمان ربانی کی طلاقت لسانی اور طبع کی روانی کا حسین امتزاج اپ کے باطنی حسن کو چہرے پر دکھا رہا تھا اور وہ بے پناہ قلبی اور روحانی مسرت محسوس کر رہے تھے
ڈاکٹر فیاض احمد رانجھا کی معیت اور نیت میں ان کا پورا قافلہ ء نو بہار پھولوں کی پتیوں اور خوشبوؤں کی مہک کے ساتھ استقبال کر رھا تھا اور اس وقت مجھے عدم یاد ایا کہ
میں لفظ ڈھونڈ ڈھونڈ کے تھک گیا عدم
وہ پھول دے کے پیار کا اظہار کر گیا
النور فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ٹبہ بابا فرید بالمقابل سنٹرل ماڈل سکول لاہور ڈاکٹر محمود شفقت میموریل فری ڈسپنسری فری سپیشل کیمپ میں ہم نے پروفیسر ڈاکٹر سید اصغر نقی سربرا شعبہ سرجری میں استاد پروفیسر ڈاکٹر معین یقین سربراہ شعبہ امراض چشم میوھسپتال ۔ پروفیسر ڈاکٹر فاطمہ محبوب سربراہ علی لیب لاہور پروفیسر ڈاکٹر الطاف قادر خان سربراہ نفسیاتی امراض نیشنل ہسپتال لاہور پروفیسر خواجہ خورشید شعبہ ریڈیالوجی راشد لطیف ہسپتال ڈاکٹر محمد امتیاز علی ایم ڈی ڈاکٹر محمد جمیل صاحب ماہر امراض پین الرازی ہسپتال لاہور ڈاکٹر ارشد محمود مغل کورین سو جوک تھراپسٹ ڈاکٹر حافظ مبشر نذیر انچارج میڈیکل افیسر اپریشن والے مریضوں کو میو ہسپتال میں داخل کیا جا رہا تھا یہ منظر دیکھ کر حقیقت یہ ہے
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں
ڈاکٹر رانجھا صاحب کی صورت میں موجود ہیں جو انسانیت سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور برملا کہہ رہے تھے کہ
دیکھ تجھے کتنا چاہا ہے کبھی غور تو کر
ایسے تو ہم کبھی اپنے بھی طلبگار نہ تھے
ڈاکٹر فیاض احمد رانجھا اس گئے گزرے دور میں اچھے وقتوں کی حسین و جمیل نشانی ہیں اپ سکوت و شگفتگی کا ایک حسین امتزاج ہیں ہم نے انہیں اکثر کوہستانی وقار کی طرح خاموش دیکھا ہے لیکن جب وہ بولتے ہیں تو پھر شاخ گفتار سے رنگا رنگ پھول توڑتے چلے جاتے ہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی ماہ جبیں خرام ناز سے گل کترتی چلی جا رہی ہو انسان کا جی چاہتا ہے کہ وہ اپ پر سوالات کرتا چلا جائے اور اپ یوں ہی گل افشانی گفتار میں مصروف رہیں۔
فقط اسی شوق میں پوچھیں ہیں ہزاروں باتیں
میں تیرا حسن تیرے حسن بیاں تک دیکھوں ۔
جو فیض سے شرف استفادہ رکھتے ہیں
اہل درد سے نسبت زیادہ رکھتے ہیں
جناب غلام حیدر مارتھ جن کے دل میں انسانیت کا درد اور انکھ میں نور کی چمک موجود تھی ان کی خاموشی میں اخوت اور رواداری کی باد بہاری چل رہی تھی ۔
تپش اندوز ہے اس نام سے پارے کی طرح
غوطہ زن نور میں ہے انکھ کے تارے کی طرح
جدید عہد کی سائنسی حکمت عملی سے متصف نابغہ روزگار عجوبہ روزگار معالج موجود تھے ۔پروفیسر ڈاکٹر سید اصغر نقی کی شفقت میں شفائی لہر دوڑ رہی تھی اور ان کی موجودگی ماحول میں اسودگی پیدا کر رہی تھی ایسے مسیح کا وجود اس گئے گزرے دور میں سب کے لیے بعد صبح کائی کا ایک خوشگوار جھونکا ہے پروفیسر ڈاکٹر معین یقین انکھ اور یقین کی انکھ سے دیکھ رہے تھے ایسے جلیل القدر درد دل رکھنے والے مسیحا کی عظمت کو سلام کرنے کو جی چاہتا ہے جن کے والد گرامی پاکستان کے محسن تھے محسن دوسروں کے لیے زندہ رہتا ہے شہید دوسروں کے لیے جان دے دیتا ہے۔ یہاں مجھے بسمل صابری کا وہ شعر یاد اتا ہے جو میں نے پروفیس ڈاکٹر معین یقین کے والد گرامی کو سنایا تھا ڈاکٹر ایس ایم کے واسطی مرحوم کی موجودگی میں کہ وہ عکس بن کے میری چشم تر میں رہتا ہے
عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے
پروفیسر خواجہ خورشید احمد ڈاکٹر محمد جمیل ثابت جناب ڈاکٹر ارشد محمود مغل جناب ڈاکٹر معین یقین اور پروفیسر ڈاکٹر سید اصغر نقی یہ وہ لوگ ہیں جو ابشار کی مانند ہیں جو یہ کہتی ہوئی بلندی سے نیچے ا رہی ہوتی ہے کہ اگر اپ لوگ ہماری سطح تک نہیں پہنچ سکتے تو ہم خود ہی نیچے اتر کر تمہاری کشت ویراں کو سیراب کرتے ہیں ۔ یہاں اگر ماہر امراض ذہنی نفسیاتی سپیچ تھراپیسٹ کلینکل سائیکالوجسٹ محترمہ نبیلہ شیخ کا ذکر نہ کیا جائے تو ناانصافی ہوگی جس نے معصوم بچوں کو لطف تکلم سے اشنا کیا ہے اور ان کے ہاتھ میں بچوں کے حوالے سے ایک خاص مسیحائی کی تاثیر موجود ہے بچے اپ سے بے پناہ وابستہ ہیں اور ان کی یہ وابستگی محترمہ نبیلہ شیخ کی درد دل رکھنے کی وجہ ہے ۔ احمد سلیمان ربانی نے ڈاکٹر پروفیسر فیاض احمد رانجھا کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے احمد فراز کا یہ شعر گنگنایا
چارہ گر یوں تو بہت ہیں مگر اے جان فراز
جز تیرے اور کوئی زخم نہ جانے میرے
ماؤزے تنگ نے کہا تھا کسی قوم کی دولت کپڑا لوھا اور سونا نہیں بلکہ قابل انسان ہے جب تک انسان زندہ ہیں ان کے دکھوں میں کمی کے لیے ان کی مدد کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی کے مر جانے کے بعد اپ کو خیال ائے کہ اس کی مدد کرنی چاہیے تھی ۔دنیا میں کوئی بلند مقام حاصل کرنا چاہتے ہو تو نسل انسانی کے سچے خیر خواہ بن جاؤ جس طرح ڈاکٹر فیاض احمد رانجھا نے اپنے اپ کو وقف کر دیا ہے انسانیت کی بنائی کے لیے انسانیت کی فلاح کے لیے ایسے لوگوں کا وجود کسی بھی معاشرے میں ایک روشن چراغ کی حیثیت رکھتا ہے فائنلن نے کہا تھا کہ میں اپنی مادر وطن کو اپنے خاندان سے زیادہ چاہتا ہوں لیکن نسل انسانی کے لیے میری محبت اپنی مادر وطن سے بھی زیادہ شدید تر ہے
ڈاکٹر فیاض احمد رانجھا ازکار رفتہ ہونے کے باوجود اج بھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ میوہسپتال میں اپنے عہدہ جلیلہ پر فائز ہیں اور اسی طرح اپ سے میو ہسپتال کے ماہرین امراض عمومی سب محبت کرتے ہیں اور یہ سارے کا سارا فیض عرصہ خدمت انسانیت کے بطن سے پھوٹ رہا ہے
تائب تھے احتساب سے جب سارے بادہ کش
مجھ کو یہ افتخار کہ میں میکدے میں تھا
بو الہوس کی بس ایک منزل
ہے اہل دل کے ہزار رستے
یہی تو تھا فرق مجھ میں اس میں
گزر گیا میں ٹھہر گیا وہ
پروفیسر ڈاکٹر فیاض احمد رانجھا بول نہیں رہے تھے بلکہ رنگ باتیں کر رہے تھے اور باتوں سے خوشبو ارہی تھی اور حقیقت یہ ہے کہ درد مند دل رکھنے والے جلیل القدر ولی کامل کی صحبت تھی ایک گھنٹہ بیٹھ کر باہر نکلا تو حقیقتا ہماری دنیا بدل چکی تھی
صد سالہ دور چرخ تھا ساغر کا ایک دور
نکلے جو میکدے سے تو حالت بدل گئی
النور فاؤنڈیشن کی کامیابی کا راز اس کے میر کارواں کی خوئے دل نوازی ہے خوش خلق کی کا اجر صرف قیامت ہی کے لیے مخصوص نہیں بلکہ دنیا میں بھی انسان کے لیے ذریعہ راحت ہے ۔تصوف نہ تو رسوم میں ہے نہ علوم میں بلکہ اخلاق کا نام ہے اگر رسم ھوتا تو مجاہدہ سے حاصل ہوتا علم ہوتا تو تعلیم سے ہاتھ اتا مگر وہ تو اخلاق ہے فقیر کا اخر تصوف کا اول ہے صوفی وہ جو ہر بلا سے بے خوف اور ہر عطا سے سیر چشم ہو ڈاکٹر فیاض احمد رانجھا انہی اوصاف حمیدہ سے متصف ہیں اور دنیا ان کو ٹوٹ کر چاہتی ہے اور وہ خود بھی انسانیت کو ٹوٹ کر گلے ملتے ہیں معصوم بچے ڈاکٹر صاحب کے اولاد کی حیثیت رکھتے ہیں اور یہی ان کا مقصد حیات ہے جن پر اپ کی پوری توجہ ہے اور نبیلہ شیخ مامتا کے جذبات سے سرشار ہے اخلاص و جان فشانی کے سبب ان کے کام میں اللہ تعالی نے خیر و برکت کی ہے اور نور فاؤنڈیشن ایک فرد کی پرخلوص کوشش کی بدولت ترقی کی راہ پر گامزن ہے
فیاض احمد رانجھا ان لوگوں کے لیے جن کے ہاں یہ سمجھتے ہیں کہ خزاں موجود ہے ان کو بہار میں بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں یہ ان کا جہاز نیکی ہے اور نیکی کی روشنی سے وہ خزاں کے اندھیروں کو بہت دور بھگا کر دم لیں گے اور دنیا جان لے گی کہ پاکستان کے افق پر خوشحالی کا سورج کیوں کر طلوع ہوتا ہے
اگر ہمارے نصیبوں میں نو بہار نہیں
اؤ چمن پرستو خزاں ہی کو سازگار کریں
منشا قاضی
حسب منشا