انتشار کی سیاست کو دھتکار نے کا وقت

30

پاکستان کے حالیہ الیکشن کے نتائج نے بڑی عجیب و غریب صورتحال پیدا کئے رکھی
کئی جماعتوں نے بیک وقت حکومت بنانے کے دعوے کئے اور پھر کچھ دنوں بعد سبھی حکومت سازی کے عمل سے گریزاں بھی ہوئے اس دوران دھاندلی کا وہ شور برپا کیا گیا کہ
جیسے الیکشن 2024ء کا عمل ہی متنازع ہوکر کالعدم ہونے جارہا ہو ،اسی ماحول سے متاثر ہوکر ملک میں کسی نئے ایڈونچر کی بازگشت بھی سنائی دینے لگی ۔
سازشی تھیوری کے عملی صورت اختیار کرنے والے حالات پیدا ہوتے چلے گئے ۔
ملک میں سیاسی استحکام لانے اور انتشار و افراتفری پھیلانے والوں کے درمیان لکیر کھینچ دی اور اس دفعہ ووٹوں کی تقسیم نے کچھ سیاسی جماعتوں کو جوڑنے کا ماحول بنادیا
کوئی بھی جماعت دوسری جماعتوں سے اتحاد بنائے بغیر تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھی ۔
دو بڑی جماعتیں کثیر تعداد میں منتخب ہونے والے آزاد اراکین کو ملاکر بھی حکومت سازی کے عمل کو آگے بڑھانے کی کوشش کرسکتی تھیں
تاہم مسئلہ یہ تھا کہ ان آزاد اراکین میں بھی ہوشربا اکثریت تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کی رہی جس میں دیگر زیادہ نشستیں لینے والی بڑی جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کا امکان ہی خارج قرار دے رکھا تھا ۔
اس کے بعد سب سے حسین امتزاج زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے اتحاد سے بنتا نظر آرہا تھا اس اتحاد میں رخنے ڈال دیئے گئے
تاہم بھلا ہو کمشنر راولپنڈی کے تماشا لگانے کا جس کے بعد دونوں بڑی جماعتوں نے
جمہوریت کا مستقبل تاریک ہونے سے بچانے کی خاطر فوری طور پر شراکت اقتدار کے معاملات طے کرکے
حکومت سازی کے عمل کو شفاف طریقے سے آگے بڑھایا اور دو بڑی جماعتوں کے اتحاد نے
ملک میں پھیلی بے یقینی ختم کردی ۔
کمشنر راولپنڈی بھی اس وقت راہ راست پر آچکے ہیں ،تاہم ملک میں الیکشن 2024 ء کو متنازع قرار دلانے کی خاطر انتشار وافراتفری پھیلانے کی کوششیں جاری ہیں ۔
پاکستان میں جمہوریت کے نام پر آزادی اظہار کے غلط استعمال کا رواج بھی عام ہے، معاملات کو بگاڑنے کیلئے ایک منظم مہم چلائی جارہی ہے ۔ سیاسی جماعتوں کے حوالے سے دو طبقات کھل کر سامنے آرہے ہیں ۔
ایک طبقہ ملک میں سیاسی استحکام کے ذریعے جمہوریت کو مضبوط بنانے کے عمل پر یقین رکھتا ہے
تو دوسری جانب ملک میں حالیہ الیکشن کو متنازع بناکر جمہوریت کی بساط لپیٹنے کے عمل کو قریب لانے کی شعوری کاوش کرنے والا طبقہ بھی سرگرم نظر آتا ہے۔
جمہوری نظام کے استحکام کے لیے مضبوط سیاسی جماعتوں کا وجود ضروری ہے۔
جمہوری نظام کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ ہر سیاسی جماعت کو کام کرنے کی آزادی حاصل ہونی چاہیے۔
کسی سیاسی جماعت کو سیاسی عمل سے باہر رکھنے کا عمل درست نہیں ہے۔
بشرطیکہ یہ واضح ہو جائے کہ کوئی تنظیم غیر آئینی، غیر قانونی اور پرتشدد سرگرمیوں میں ملوث نہ ہو۔
اب یہ بات تو طے ہے کہ اس وقت ملک میں انتشار کی سیاست کا مقصد صرف جمہوریت کو پٹٹری سے اتارنے کے سوا کچھ نہیں ۔
عوام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے والوں کو روکنے کا کوئی بندوبست بھی نظر نہیں آتا ،
بادی النظر میں سازشوں کے توڑ کے طور پر بھی نئی سازشوں کے تانے بانے بنے جارہے ہوں ۔
صاف شفاف جمہوری اقدار کے فروغ کی تو شائد کوئی صورت ہی نظر نہیں آتی
قوم کے مسائل کا حل تلاش کرنے والے “سازشی تھیوریوں” کے گھن چکر میں پھنس کر رہ گئے ہیں
،جہاں تخریب کاری کو حقیقی جمہوری عمل قرار دینے کا رواج پنپ رہا ہو
آزادی ء اظہار کے نام پر ملک کی ساکھ خراب کرنے کی سوشل میڈیا پر منظم مہم چلائی جارہی ہو،
اداروں پر رکیک حملے ہورہے ہوں قومی سلامتی کے لئے خطرات پیدا کئے جا رہے ہوں
قوم کے نوجوانوں کو گمراہ کرنے کی خاطر انکے سامنے تاریخی حقائق توڑ مروڑ کر پیش کئے جارہے ہوں
تو پھر ملکی نظام کو درست ٹریک پر لانا کیسے ممکن ہوگا ؟
.جھوٹ کی مقبولیت پر سچ کی تلاش کیسے ممکن ہوسکے گی؟
قوم کی حقیقی رہنمائی کرنے والے یکسوئی سے کیسے کام کرسکیں گے؟
اس طرح کے حالات میں حقیقی حب الوطنوں کے ذہنوں میں ایسے ہی سوالات ابھریں گے ۔
جمہوریت میں سب سے اہم کام معاشی مساوات قائم کرناہوتا ہے
اس کے لئے سب سے پہلے معاشی استحکام لانا مقصود ہوگا
مگر یہاں تو سراسر اسکے برعکس حالات پیدا کئے جارہے ہیں ۔معاشی بحرانوں میں اضافے کی صورت نکالی جارہی ہے ۔نئی حکومت قائم ہونے سے قبل ہی اسے گرانے کے منصوبے شروع کئے جارہے ہیں۔
ان حالات میں پھر حکومت اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی خاطر جو توانائیاں صرف کرے گی
تو پھر معاشی استحکام لانے کی کاوشیں تو ضرور متاثر ہونگی ۔
حالات ملک کی معیشت بچانے کی خاطر تمام سیاسی جماعتوں کے اتحاد کا تقاضا کرتے ہیں
تاکہ نئی منتخب حکومت یکسوئی سے عوام کو ریلیف دینے کی خاطر معاشی پالیسیاں بنا سکے ۔
ملک میں سیاسی استحکام پیدا کرکے معاشی استحکام لانے کی کاوشوں کو کامیاب بنانا ضروری ہے ۔
عوام کا فائدہ اب انتشار اور افراتفری کی سیاست کو مسترد کرنے میں ہے ۔
عوام اب اپنے فائدے کی سوچیں۔
منتشر ہونے کی بجائے قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتشار پھیلانے والوں کی منفی سیاست کو دھتکار دیں،
ورنہ کسی بھی الیکشن کے نتیجے میں حالات سنورنے کی کبھی کوئی صورت شائد پیدا نہ ہوسکے ۔

26/02/24

https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/02/p3-19-1-scaled.jpg

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.