متاعِ جاں کا عجب کاروبار اس کا ہے
بدن ہمارے ہیں اور اختیار اس کا ہے
شاعر لفظوں سے تعمیر کی جانے والی عمارت کا معمار ہوتا ہے، جس میں لفظ ستارے اور شعر آسمان ہوتا ہے۔ وہ شعروں کو معنی کے اعتبار سے موزوں کرنے کے ساتھ ساتھ صوتی حسن سے بھی ہم آہنگ کرتا ہے۔ شاعر قافیہ و ردیف کے نازک سانچوں میں جذبات و خیالات کو اس مہارت سے ڈھالتا ہے کہ ہر شعر سننے والے کے دل پر دستک دیتا ہے، اور سامع “واہ واہ” کہے بغیر نہیں رہ سکتا۔
جب کوئی شاعر لفظوں کو اپنے محسوسات و تاثرات کے اظہار کا ذریعہ بناتا ہے، جب وہ لمس سے ابھرے تخیل کو روپ دینا سیکھ لیتا ہے، تو وہ محض ایک قلمکار نہیں، بلکہ ایک فنکار بن جاتا ہے ایسا فنکار جو جذبات کے کینوس پر احساسات کے رنگ بکھیرتا ہے۔ جناب جاوید قاسم کا شمار ایسے ہی معتبر شعرا میں ہوتا ہے جنہوں نے اردو شاعری کو نہ صرف فکری گہرائی دی، بلکہ جمالیاتی لطافتوں کو بھی ایک نیا انداز عطا کیا۔
حال ہی میں ان کا نیا زیرِ طباعت شعری مجموعہ “یا عشق مدد” میرے مہربان دوست جناب نواب ناظم کی وساطت سے مطالعے کے لیے میسر آیا۔ اس کی ورق گردانی سے یہ آشکار ہوا کہ جاوید قاسم نے نیا فلک “یا عشق مدد” تخلیق کرکے ہماری ہتھلیوں پہ لا رکھا ہے۔ انہوں نے عشق کو تفہیمِ ذات، صوفیانہ نظریات اور توحیدی فلسفوں سے سمجھا ہے۔ عشق کی آگ سے روشنی ہے اس کی دسترس کی ابتداء ہی اعلی ترین مقامات سے ہوتی ہے۔ مگر اس کا المیہ ہے کہ عشق سراپا تشنگی ہے، جیسے سلطان باہوؒ فرماتے ہیں
جیں دے اندر عشق دی رتی
رہن صدا کرلاندے ہو
جاوید قاسم صاحب پہلے ہی “پوری عمر کا دن” اور “کوئی چشمہ نکل آئے” جیسے متنوع شعری مجموعوں کے ذریعے اردو ادب کو ثروتمند کر چکے ہیں۔ ان کی شاعری کے اسلوب، احساسات کی شدت، اور لفظوں کے چناؤ پر معروف شعراء و نقاد حضرات، جن میں جناب فرحت عباس شاہ، پروفیسر طارق عزیز، اور انجمن فروغِ سخن پاکستان کے روح رواں جناب ڈاکٹر عاصم بخاری شامل ہیں، اپنی مبسوط آراء دے چکے ہیں۔ ان کی درویشانہ زندگی پر پروفیسر طارق عزیز ایک طویل مضمون لکھ چکے ہیں، جو ھشتِ درویش نامی کتاب میں شامل ہو چکا ہے گو کہ اس پر مؤلف کو اختلاف تھا کہ طارق صاحب نے انہیں سیدھا منصور الحلاج کے ساتھ ملا دیا، جو سراسر ناانصافی ہے۔ بہرحال، ایک رقصِ مستانہ ان کے اندر جاری ہے، جو تہ در تہ دائرے بناتا ہے اپنے اندر گھومتے گھومتے وہ ایک الگ بہت بڑے افلاکی کہکشاؤں کے دائرے میں گردش کرتا داخل ہو جاتا ہے۔
جاوید قاسم دراصل تخیل کی دنیا کے “رنگ ریز” ہیں، جو الفاظ کے ریشمی دھاگوں میں جذبوں کے رنگ بھر کر ایسا شعری لباس تیار کرتے ہیں جو قاری کے دل کو چھو لیتا ہے، آنکھ کو جمال عطا کرتا ہے، اور ذہن کو بیدار کرتا ہے۔ وہ صرف شعر نہیں کہتے، وہ کیفیت بناتے ہیں ایک ایسا تخلیقی ماحول، جہاں ہر لفظ معنی کے گلاب کی طرح کھلتا ہے، اور ہر مصرعہ جذبے کی آبشار بن کر بہنے لگتا ہے۔
ان کے اشعار میں وہ چاشنی اور فکری اڑان ہے کہ پڑھتے ہی ذہن کے نیوران غنچوں کی طرح چٹخنے لگتے ہیں، بدن گلاب کی طرح کھل جاتا ہے، جذبے مہک اٹھتے ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے خشک سالی کی آتش فشانی میں جلتی تڑکتی زمین کے تشنہ لب ذروں کو برسات کی موسلا دھار بارش کے قطرے یونہی چھو لیں، تو پیاسی زمین، انبساط اور جذبۂ تشکر سے لبریز ہو کر، کونپلوں کی صورت ہر شاخ سے مہکتی پتیوں کا روپ دھار کر، ارض کے نخلستان کو چمن زار میں بدل دیتی ہے۔
جاوید قاسم کو نہ صرف اوزان و بحور پر بلکہ قافیہ و ردیف پر بھی اس قدر قدرت حاصل ہے کہ حیران کن ردیف سے اشعار کو نئی جہت بخشتے ہیں۔ جیسے اس شعر کو دیکھیے:
پسِ ظلمت کہیں گروی پڑا ہے
چراغِ دل نشیں گروی پڑا ہے
یہاں ایک ہی بیت میں شاعر زر پرستوں کی مالی مجبوریوں میں جکڑے غریب کو چند سکے تھما کر اس کی ننھی ننھی ضرورتوں کو گروی رکھنے کی دردناک روش کی طرف اشارہ کناں ہے۔ بعینہٖ، ظالم اشرافیہ، مظلوموں کے اصولوں اور انسانیت کو دھشت اور خوف کے زیرِ تسلط گروی رکھنے کی راسخ رسم کو بھی بے نقاب کرتا ہے۔
جاوید قاسم کی شاعری میں غزل کی لذت اور موضوعات کا دائرہ وسیع تر ہے۔ ان کے شعروں میں سادگی، بہاؤ اور ندرت ہے۔ نئے زاویے ہیں، اچھوتے افکار ہیں۔ مسائل سے بھری زیست کے درد بھی غزلوں سے چھلکتے ہیں۔ جیسے ریگستانوں میں گل لالہ کے سوا کچھ نہیں کھلتا، ویسے ہی دکھوں کی سرزمین خوشیوں سے کب آباد رہتی ہے۔ یہی کیفیت جاوید قاسم کی شاعری میں بھی ملتی ہے۔ یہ شعر ملاحظہ کریں۔
بیچ ڈالے گی کبھی کوئی ضرورت مجھ کو
خرچ ہو جاؤں گا اک روز کمایا ہوا میں
ان کے ہاں کثیرالجہت موضوعات پر اشعار ملتے ہیں، البتہ درونِ ذات کی یکجہت شاعری ان کا جزوِ قلم بن چکی ہے۔ ان کی سادگی بھی چاشنی سے بھرپور ہے۔ جزو و کل، وحدۃ الشہود اور وحدۃ الوجود کی تفسیریں بھی ان کے سیپ جیسے بیتوں میں چھپی بیٹھی ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
بس اتنا کام کیا، راستہ نکل آیا
خدا کا نام لیا، راستہ نکل آیا
بدن کے دشت سے آگے بھی راستے ہیں بہت
لپٹ گیا ہے میرے پاؤں سے سفر کتنا
متاعِ جاں کا عجب کاروبار اس کا ہے
بدن ہمارے ہیں اور اختیار اس کا ہے
مٹی کی اس پوٹلی- جاوید قاسم نے وقت کے دائرے میں، آباد پرہجوم دنیا میں ماہ و سال، شب و روز کا طویل سفر طے کیا ہے۔ جزو ہو کر وہ کل کا مسافر بنا رہا۔ اسی مسافت میں رنج و الم کی گرد نے ان کی پہچانن کو چہرے کو غبار آلود کیے رکھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مصائب و آلام ہر جان کے