تبادلہ، ادل بدل، نقل مکانی اور پھر منتقلی۔ زیادہ تر لوگ جائیداد کی منتقلی کے تصور سے واقف ہیں ہاں کچھ دل والے تصور جاناں سے بھی آگاہ ہیں۔ بندہ اپنی اوقات میں رہے تو معاملات میں ایک تسلسل ہوتا ہے اور تسلسل سے ہی چیزیں آگے بڑھتی ہیں۔ ویسے تو ہر چیز کے اوقات ہیں اور اس تصور کے ثمرات سے صرف وہی لوگ مکمل طور پر آگاہ ہیں جو ٹائم مینیجمنٹ جانتے ہیں۔ مینیجمنٹ سے زندگی میں ٹھہراو، اعتدال اور خوبصورتی بلکہ بہت ہی کچھ پیدا کیا جا سکتا ہے۔ افسوس صد افسوس ہم نے زیادہ وقت بچے پیدا کرنے میں گزار دیا اور اب آبادی کنٹرول کرنے کے ون پونے طریقے جاننے کی کوشش کر رہے ہیں اور ابھی تک ہم نے اس بات کو پوری طرح نہیں سمجھا ہے کہ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی۔ خیر ابھی تک آبادی بڑھا کر ہم نے اپنی زندگی کو جہنم بنایا ہوا ہے اور وہ بھی ایسی جہنم جس میں چھوٹی چھوٹی بات پر آگ لگ جاتی ہے اور آگ بھی ایسی جو بجھنے کا نام نہیں لیتی۔ نام بنانے کے لئے کام کرنا پڑتا ہے اور ہمارے ہاں بعض علاقے ایسے ہیں جہاں کے صاحب حیثیت لوگ یہ بیانیہ بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ زندگی بس چند دن کی کہانی ہے ہر وقت دھکے کھانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے اس لئے مسا لونا جو مل جائے کھا لیا جائے اور ڈیروں پر کچھ نہ کچھ کھانے کو مل جاتا ہے لہذا بیٹھے رہو بیٹھے رہو۔ ٹھنڈ پروگرام اور اس پروگرام کے داعی دوسروں کو نصیحت خود میاں فصیحت اور خود راتوں رات کیا سے کیا ہو جاتے ہیں۔ بات بھی کہاں سے کہاں چلی گئی ہے۔ ہاسیاں توں شروع ہوئی ہنجواں تے مک گئی۔ زیر نظر کالم تبادلہ سے شروع ہوا تھا اور مایوسی کے گھوڑے پر ٹپوسی مار کے بیٹھ گیا ہے۔ صورتحال انتہائی نازک ہوگئی ہے لہذا دماغ کے استعمال کرنے کا وقت آگیا ہے۔ تبادلے بھی کئی قسم کے ہیں جن میں سے معروف اقسام اس وقت میرے ذہن سے باہر آنے کو کررہی ہیں۔ قیدیوں کا تبادلہ، جذبات کا تبادلہ بلکہ احساسات کا بھی تبادلہ۔ گلے گلوچ کا تبادلہ، زمینوں کا تبادلہ، سمائل کا تبادلہ، نظر بھر کے دیکھنے کا تبادلہ، تحفے تحائف کا تبادلہ، دلوں کا تبادلہ، پگوں کا تبادلہ اور پھر افسروں کا تبادلہ۔ ان سارے تبادلوں میں مشترک چیز تبادلہ ہی ہے باقی سب کے لوازمات میں اتنا ہی فرق ہے جتنا کہ سلونی اور الونی روٹی میں ہوتا ہے۔ بھوک کی شکل میں تو بندہ ہر چیز ہی کھا جاتا ہے۔ اور ذہنی دباؤ ایک ایسی چیز ہے جس میں زہر تک کھانے پر بھی مجبور ہونا پڑتا ہے۔ یہ بات ہر ذی روح کے کانوں تک پہنچا دینی چاہیئے کہ انسان مجبور محض نہیں ہے تاکہ زہر کھانے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔ انسان ہمت کرے تو کیا کچھ ہو نہیں سکتا۔ سب سے بڑی بات ہے کہ نجومی یا عامل کے پاس جائے بغیر بلکہ اس کی مٹھی گرم کئے بغیر محبوب کو قدموں میں بٹھایا جا سکتا ہے۔ محبوب اور قدموں والی بات بدبخت نجومیوں نے عام کردی ہے حالانکہ محبوب سر پر بٹھانے والی چیز ہے ویسے تو اسکو دل اور دماغ میں بھی بٹھایا جا سکتا ہے اور آنکھوں سمایا جا سکتا ہے آنکھ بڑی حساس چیز ہے۔ ایک شاعر نے تو محبوب کو آنکھ میں لا کر بٹھا دیا ہے( مثل پتلی کے میں آنکھوں بٹھاوں تجھ کو ۔۔۔۔نہ کسی غیر کو دیکھوں نہ دکھاوں تجھ کو) شاعر مکمل طور پر محبوب کو تنہا کر کے رکھنا چاہتا ہے۔ اللہ خیر کرے شاعر یہ کیا کرنا چاہتا ہے دل کے بھید خدا ہی جانتا ہے۔ شاعر کی ہر بات کو ماننے کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ شعر پڑھ کر بس مزہ لینا چاہیئے۔ زیادہ سیریس ہونے کا نتیجہ بیماری ہوتا ہے اور بیماری کا حتمی نتیجہ آپ سب جانتے ہیں ۔ سیریس مریض کی اگلی منزل عالم برزخ ہے اور اس عالم میں آپ کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے لہذا یہاں اپنے معاملات درست رکھنے سے ہی بندہ خوشی خوشی اگلی جگہ چلا جاتا ہے۔
ملازمت کے دوران تبادلے معمول کی بات ہوتی ہے لیکن بعض اوقات وجہ تبادلہ غیر معمولی بھی ہو سکتی ہے۔ غیر تو پھر غیر ہوتا ہے ایسی صورتحال میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ متاثرہ افسر کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو بھی چھلک سکتے ہیں اور ایسا بھی امکان ہے کہ بات دل پر لگا لی جائے اور دل تو شاید مان جائے لیکن آنکھیں کب مانتی ہیں اور آنکھیں ساون کی طرح چھم چھم برسنا شروع کردیں اور جذبات کا سیلاب آجائے۔ جب سیلاب آتا ہے تو وہ پھر ہر چیز کو بہا کر لے جاتا ہے۔ تاہم کیس ٹو کیس ویری کررہا ہوتا ہے۔ بعض لوگ افسروں کے بھی ویری ہوتے ہیں اور ایسے لوگ تو ان کے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑ جاتے ہیں۔ افسروں کی بھی بڑی ورائٹیاں ہیں کچھ تو آگے سے ان کو ہاتھ دکھا جاتے ہیں اور کچھ اس ویر کا شکار ہو کر نجومی کو ہاتھ دکھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ مجبور بیچارا دربدر۔ ٹکا ٹوکری اور استثنائی صورتحال میں افسر بکار خاص۔ لفظ کی معنویت کو اگر درخور اعتنا نہ سمجھا جائے تو مستعمل لفظ بیکار ہے اور اگر افسر کے پاس اپنی کار نہ ہو پھر تو روڈ ماسٹر کا کردار بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔ خیر سفر وسیلہ ظفر ہوتا ہے۔ گاڑی دوبارہ پٹڑی پر چڑھ جاتی ہے اور پھر نان سٹاپ۔ متذکرہ بالا صورتحال کے پیش نظر ہی تو بحث جنم لیتی ہے کہ مدت تعیناتی کی ضمانت ہونے سے ہی ملازمین میں دل جمعی اور یک سوئی پیدا ہوتی ہے اور کام کی کوالٹی کے اچھے ہونے کا امکان ہے۔ یہ سارا کچھ ویسے تو انگریز جانے سے پہلے لکھ لکھا گیا تھا تاہم انتظامی امور تو حکومت وقت نے چلانا ہوتے ہیں اور وہ بھی چابکدستی سے۔ چابک کا کبھی کبھی استعمال گاڑی کی رفتار کو رواں بھی کرتا ہے اور تیز بھی