بیجنگ کانفرنس 2025 — چنگل سے آزادی

تحریر: ڈاکٹر عمرانہ مشتاق

5

کبھی کبھار تاریخ کسی طبل یا توپ کے شور کے بغیر نیا موڑ مڑتی ہے۔ نہ دھواں اٹھتا ہے، نہ نعرے گونجتے ہیں، مگر ایک نیا باب خاموشی سے رقم ہو جاتا ہے — ایسا باب جو ماضی کی راکھ سے اگتی ہوئی کسی نئی سوچ کا پہلا ورق ہوتا ہے۔ بیجنگ کانفرنس 2025 بھی کچھ ایسا ہی لمحہ تھی۔

21 اور 22 مئی کو بیجنگ کی پُرسکون مگر زیرِلب بولتی فضاؤں میں پاکستان، افغانستان اور چین کی اعلیٰ قیادت جب ایک میز پر بیٹھی تو دنیا نے اسے محض ایک سفارتی اجلاس سمجھا۔ مگر درحقیقت یہ ایک ایسی گم شدہ آواز کا لوٹنا تھا جو برسوں سے جنگوں سازشوں اور بیگانگی کے شور میں دب چکی تھی۔

افغانستان، جو دہائیوں سے صرف میدانِ جنگ کے طور پر جانا گیا کبھی سوویت چھاؤں میں، کبھی امریکی سائے میں اس بار میز پر صرف شریک نہیں تھا وہ خود ایک فریق تھا۔ اس کے ہاتھ میں کاسہ نہیں، نقشہ تھا۔ طالبان قیادت کی طرف سے یہ اعلان کہ “جنگ ختم، اب توجہ قوم پر ہے” محض ایک جملہ نہیں، ایک پورے بیانیے کی تبدیلی تھی۔ اور یہی لمحہ تھا جب ایک مظلوم قوم نے بندوق سے نظریہ چھین کر تعمیر کے خواب باندھے۔

ادھر پاکستان جو اکثر یا تو مغرب کا تابع دکھایا گیا یا مشرق کا حاشیہ اب بیچ میں نہیں، مرکز میں تھا۔ اس نے نہ مطالبات کیے، نہ دفاعی زبان اپنائی۔ بیجنگ میں پاکستان پہلی بار صرف جواب دہ نہیں، بااختیار نظر آیا۔ اس کے لہجے میں اعتماد تھا، اور کردار میں خاموش وقار۔

چین کی طرف سے پاکستان کو اسٹریٹیجک اتحادی تسلیم کیا جانا، 30 J-35A طیاروں کی منتقلی، سیٹلائٹ تعاون، اور سی پیک میں افغانستان کی شمولیت — یہ سب بظاہر معاہدے تھے، مگر اصل میں یہ اعتماد کے اظہار تھے۔ ایسے اعتماد جو برسوں کی قربانی، استقامت، اور خاموش سفارتکاری کے بعد حاصل ہوتے ہیں۔

بھارت، جو خطے کو ہمیشہ اپنی منڈی سمجھتا رہا، اب سفارتی تنہائی میں کھڑا تھا۔ بیجنگ کانفرنس کے بعد نہ صرف افغانستان سے اس کا اثر کم ہوا، بلکہ ایران اور وسطی ایشیا تک رسائی کا جو خواب دہلی نے برسوں پالا وہ اب راہداریوں کے سنگم پر تحلیل ہو چکا ہے۔

اس تمام منظرنامے میں ایک اہم ترین تبدیلی یہ تھی کہ خطے کی چھوٹی سمجھی جانے والی آوازوں نے خود کو صرف ردعمل تک محدود نہیں رکھا بلکہ نئی راہیں وضع کیں۔ اسلام آباد، کابل اور بیجنگ یہ تین شہر اب محض جغرافیائی نقطے نہیں ایک نئی حکمتِ عملی کی تکون بن چکے ہیں۔

بیجنگ کانفرنس کے اختتام پر نہ کوئی فوجی مارچ ہوا نہ کوئی پرچم لہرا کر طاقت کا مظاہرہ کیا گیا۔ لیکن یہ سکوت خود ایک اعلان تھا ایک ایسا اعلان جو مہروں کی نئی چال کا پتہ دے رہا تھا۔ اب فیصلے واشنگٹن ماسکو یا دہلی میں نہیں، اسلام آباد،بیجنگ اور کابل میں ہوں گے۔

یہ معاہدہ زمینوں کا نہیں، ذہنوں کا تھا۔ یہ جنگوں کے بعد پیدا ہونے والی تھکن کا جواب تھا۔ یہ اس لمحے کا نام تھا جب تین زخمی قوموں نے ایک دوسرے کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا — اور دشمن کی جانب بند مٹھی سے نہیں، کھلی ہتھیلی سے جواب دیا۔

بیجنگ کانفرنس محض ایک واقعہ نہیں تھی۔ یہ اس صدی کی پہلی سنجیدہ کوشش تھی جس میں تلواریں نیام میں رہیں اور نقشے میزوں پر کھلے۔ نہ کوئی غالب تھا، نہ مغلوب صرف وہ تھے جنہوں نے اپنے ماضی کی راکھ سے اپنا کل تراشا۔

اور جب کوئی قوم چنگل سے آزادی حاصل کرتی ہے تو وہ سب سے پہلے اپنی سوچ کو آزاد کرتی ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.