پروفیسر سلیم منصور خالد ان علمی شخصیات میں سے ایک ہیں جنہوں نے نہ صرف علم و فکر کی دنیا میں اپنی انفرادیت قائم رکھی بلکہ اپنی عملی زندگی میں بھی استقامت، وقار اور سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ حال ہی میں انہیں ماہنامہ “عالمی ترجمان القرآن” کا نیا مدیر مقرر کیا گیا ہے۔ یہ تقرری جہاں ایک بڑی علمی روایت کی تسلسل کی علامت ہے، وہیں یہ اس بات کی نوید بھی ہے کہ مجلہ ترجمان القرآن کی علمی و فکری عظمت آئندہ بھی برقرار رہے گی۔
پروفیسر سلیم منصور خالد کا تعلق ضلع گوجرانوالہ سے ہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے توسط سے وہ تحریک اسلامی سے وابستہ ہوئے اور پھر ان کا فکری و عملی سفر جماعت اسلامی کے دامن سے جڑ گیا۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی لاہور کے اوریئنٹل کالج میں شعبہ پنجابی سے تعلیم حاصل کی اور وہاں سے ہی ان کی ادبی اور فکری سرگرمیوں کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ ان کے ہم جماعتوں کے مطابق وہ اس زمانے میں بھی سنجیدہ مزاج، علم دوست اور گہرے فکری رجحانات رکھنے والے طالب علم تھے۔ ان کی ادبی تحریروں میں فکری گہرائی اور اصول پسندی کا عنصر نمایاں ہوتا تھا۔
زمانہ طالب علمی میں سقوطِ مشرقی پاکستان جیسے حساس موضوع پر انہوں نے “البدر” کے عنوان سے جو کتاب لکھی، وہ چشم کشا حقائق پر مبنی ایک دستاویزی کتاب تھی۔ یہ کتاب کئی سالوں تک بیسٹ سیلر رہی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے قلم میں اثر اور تحریر میں صداقت کا جذبہ موجود ہے۔ وہ صحافت کے بازار میں کبھی شامل نہیں ہوئے بلکہ طہارتِ فکر کے ساتھ کتاب اور قلم سے وابستگی کو اپنی پہچان بنائے رکھا۔
ادارہ ترجمان القرآن سے ان کی وابستگی کوئی نئی بات نہیں۔ وہ ایک طویل عرصے سے اس ادارے کے ساتھ منسلک ہیں اور پروفیسر خورشید احمد مرحوم کے دور میں نائب مدیر کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔ اس دوران انہوں نے ادارتی کاموں میں گہری بصیرت اور فکری یکسوئی کے ساتھ معاونت کی۔ ان کی شخصیت میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو ایک مدیر کے لیے ضروری سمجھی جاتی ہیں۔ وہ نہایت منکسرالمزاج، متوازن مزاج اور علمی روایتوں کے پاسبان ہیں۔
پروفیسر سلیم منصور خالد کو سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، پروفیسر عبدالحمید صدیقیؒ، نعیم صدیقیؒ، اور خرم مرادؒ جیسے جید علما اور اہل فکر سے کسب فیض حاصل کرنے کا موقع ملا۔ یہ وہ عظیم شخصیات تھیں جنہوں نے “ترجمان القرآن” جیسے اہم علمی و فکری رسالے کی ادارت کی اور اسے اپنے وقت کا نمایاں ترین علمی مجلہ بنایا۔ انہی کی روایتوں کو پروفیسر سلیم منصور خالد کے ہاتھوں میں سونپ دینا یقیناً ایک فکری تسلسل کی علامت ہے۔
۱۳ اپریل ۲۰۲۵ء کو پروفیسر خورشید احمد کی رحلت نے تحریک اسلامی کے علمی و فکری محاذ پر ایک بڑا خلا پیدا کیا۔ ان کی وفات سے “ترجمان القرآن” اپنے عظیم مدیر سے محروم ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ اس خلا کو پُر کرنا اگرچہ مشکل ہے، لیکن پروفیسر سلیم منصور خالد کی تقرری ایک امید افزا پیش رفت ہے۔ ان کے اندر وہ فکری توانائی، مطالعہ کی وسعت، اور ادارتی مہارت موجود ہے جو ترجمان القرآن کو آئندہ بھی ایک ممتاز مقام پر فائز رکھ سکتی ہے۔
ادارت صرف تحریری کام نہیں، بلکہ ایک فکری امامت ہے۔ مدیر کا کام صرف مضامین ترتیب دینا نہیں، بلکہ ایک فکری رجحان کی تشکیل، علمی معیار کی حفاظت، اور قارئین کو درپیش عصری مسائل پر رہنمائی فراہم کرنا بھی شامل ہے۔ پروفیسر سلیم منصور خالد ان تمام تقاضوں پر پورا اترنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں ہمیشہ ایک فکری وضاحت، اصولی جرات اور علمی شائستگی دکھائی دیتی ہے۔ یہی خوبیاں انہیں دیگر ادیبوں اور مفکرین سے ممتاز کرتی ہیں۔
ترجمان القرآن کی تاریخ میں کئی عظیم شخصیات مدیر کے طور پر خدمات انجام دے چکی ہیں۔ سید مودودیؒ سے لے کر خرم مرادؒ تک، ہر مدیر نے اپنے دور میں رسالے کو ایک نئی جہت عطا کی۔ پروفیسر مسلم سجاد کی بطور نائب مدیر خدمات بھی ناقابلِ فراموش ہیں۔ ان کے بعد نائب مدیر کی ذمہ داریاں سنبھالنے والے پروفیسر سلیم منصور خالد نے بھی ایک خاموش لیکن موثر کردار ادا کیا۔ اب ان کے کندھوں پر پوری ادارت کی ذمہ داری ہے اور امید کی جاتی ہے کہ وہ اس امانت کو بخوبی نبھائیں گے۔
عصرِ حاضر میں جہاں سوشل میڈیا اور سطحی مباحث نے علمی و فکری صحافت کو نقصان پہنچایا ہے، وہاں “ترجمان القرآن” جیسے رسالوں کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے۔ ایسے میں ایک ذمہ دار، دیانت دار اور فکری طور پر مستحکم شخصیت کی ادارت نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ پروفیسر سلیم منصور خالد کی تقرری اس لحاظ سے بھی خوش آئند ہے کہ وہ کسی فکری یا سیاسی تعصب سے بالا ہو کر صرف دین، امت، اور فکری تطہیر کے جذبے سے کام کرتے ہیں۔
دعا ہے کہ اللہ رب العالمین ان کی اس نئی ذمہ داری میں ان کا دست و بازو بنے۔ انہیں عصر حاضر کے فکری، تہذیبی اور نظریاتی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے بصیرت اور استقامت عطا فرمائے، اور وہ ترجمان القرآن کو نہ صرف علمی معیار پر برقرار رکھ سکیں بلکہ اسے نئی فکری بلندیوں سے ہمکنار کر سکیں۔ یہ ایک عظیم امانت ہے اور پروفیسر سلیم منصور خالد جیسے سنجیدہ اور فکری شخص کے لیے ایک نادر موقع بھی، جو ان شاء اللہ ان کی تحریری زندگی کا ایک اہم اور روشن باب ثابت ہوگا۔