ایک سنئیر آفیسر کی کال آئی کہ بھائی ناشتہ کرلیا میں نے کہا کہ نہیں موسٹ ویلکم تشریف لائیں اکٹھے کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ ایک میوچل دوست لاہور آئے ہوئے ہیں ہم دھرم پورہ پائے کھانے جارہے تھے آپ کو بھی پک کرلیتے ہیں۔ ہم گارڈن ٹاؤن سے نکلے تو سپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد کے گھر سے نہر کی طرف جانے والے ڈبل روڈ پر رکشہ و ریڑی والوں نے ہاف سڑک پر قبضہ کیا ہوا تھا۔ کینال روڈ سے دھرم پورہ کیلئے یوٹرن لینے لگے تو سامنے سے بنا نمبر پلیٹ رکشوں کا قافلہ بلا خوف و خطر رانگ وے استعمال کرتا ہوا آرہا تھا۔ دھرم پورہ دونوں اطراف بیچ سڑک ناجائز پارکنگ اور تجاوزات ہی تجاوزات۔ مشہور اقبال ٹی سٹال کا رخ کیا تو وہاں بھی منٹگمری روڈ، ایبٹ روڈ، لکشمی چوک اور ہال روڈ سے گاڑی گزارنا مشکل تھا۔ جس سڑک سے بھی گزرتے بنا نمبر پلیٹ رکشے اور گاڑیاں دیکھ کر ہمارے ساتھ موجود وزارت داخلہ میں تعینات سنئیر افیسر نے بتایا کہ گذشتہ چھے ماہ میں متعدد دفعہ مختلف ایجنسیز کی طرف سے ایس آئی آر(سپیشل انفارمیشن رپورٹ) آئی ہیں کہ مبہم اور بنا نمبر پلیٹ گاڑیاں سیکیورٹی رسک ہیں اس کے باوجود مبہم، بنا نمبر پلیٹ اور نمبر پلیٹ کے آگے اضافی راڈ لگاکر نمبر پلیٹ کو چھپانے والی ٹریفک پولیس سمیت دیگرسرکاری و غیر سرکاری گاڑیوں کے خلاف کاروائی کیوں نہیں ہورہی؟ تیسرے افیسر کا کہنا تھا کہ اغوا، چوری، ڈکیتی، قتل اور دہشت گردی میں استعمال ہونے والی بنا نمبر پلیٹ گاڑی کا پرچہ متعلقہ سی ٹی او پر ہونا چاہئے۔
ٹریفک کی روانی میں ناکامی، نااہلی اور جعل سازیوں کی پردہ پوشی کیلئے پولیس ٹاؤٹ قسم کے صحافیوں اور یوٹیوبرز کی مدد سے ہر وقت خبروں میں رہ کر جھوٹے دعووں سے ارباب حکومت اور اداروں کو مس گائیڈ کرنے کی بجائے غیر قانونی پارکنگ، گارگو اڈوں، پبلک ٹرانسپورٹر کی ریگولر کمائی چھوڑ دیں ٹریفک مسائل ختم ہوجائیں گے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ ٹریفک مسائل ہی ٹریفک پولیس کے وسائل ہیں۔
پولیس سروس کے دوست نے کہا کہ بزدار دور میں انہیں سی ٹی او لاہور کی آفر ہوئی تو انہوں نے کہا کہ سی ٹی او نہیں کہیں ڈی پی او کی آپشن ہو تو ٹھیک ورنہ سی پی او پنجاب آفس ہی ٹھیک ہے۔ پی ایس پی دوست نے کہا کہ آفر کرنے والے نے کہا کہ سی ٹی او کے بعد آپ ساری ڈی پی او شپ بھول جائیں گے۔ یہ بات سچ ثابت ہورہی ہے کہ واقعی سی ٹی اوکے بعد کسی ڈی پی او شپ کی ضروت نہیں۔
تینوں افسران کا کہنا تھا کہ سی ٹی او، ای چالان ڈیفالٹر سرکاری گاڑیوں کے خلاف ان بڑھکوں سے کس کو اور کتنا بیوقوف بنائے گا؟
تم ایک ایک ای چالان ڈیفالٹر گاڑی کی نشان دہی بھی کرلو گے اور انکو پکڑ بھی لو گے کیونکہ وہ ان قانون پسند شہریوں کی ہیں جو دونمبر نہیں ہیں جو اوریجنل نمبر پلیٹ لگاتے ہیں لیکن اس سے زیادہ مضحکہ خیز بات کیا ہوسکتی ہے کہ بنا نمبر پلیٹ والوں کو نہیں پکڑو گے۔
ای چالان سسٹم میں بھی بہت زیادہ اصلاح کی ضرورت ہے ایک تہائی چالان ایسے ہوتے ہیں جو جسٹیفائیڈ نہیں ہیں کیونکہ اگر اچانک آگے والا بریک لگا دے یا سپیڈ سلو کردے تو “مڈ وے” میں آپکا چالان۔ لائن کی خلاف ورزی بھی بائیک اور رکشہ والوں کی تیز رفتار کٹوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔
گاڑی میں موبائل استعمال کرتا، بنا سیٹ بیلٹ والا نظر آجاتا ہے تمہیں اگر نظر نہیں آتا تو کروڑوں روپے ماہانہ کی اکانمی والے مبہم اور بنا نمبر پلیٹ رکشے، ٹرک ٹویٹا اور بسیں نظر نہیں آتیں۔ عام شہری سڑک پر گاڑی کھڑی کرتے نظر آجاتا ہے لیکن پرائیویٹ دفاتر اور کار شوروم کی بیچ سڑک ریگولر غیر قانونی پارکنگ نظر نہیں آتی۔
سارا لاہور اور پنجاب ٹریفک جام میں پھنسا ہوتا ہے لیکن تم روڈ سائڈ تجاوزات اور غیرقانونی پارکنگ کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کرتے؟
کوئی سڑک بتا دو جہاں بیچ روڈ ریڑیاں اور رکشے راستہ روک کر دکانداری نہیں کر رہے؟
لفٹر کے زریعے اکٹھے ہونے والے رقم پنجاب حکومت کی بجائے سی ٹی او ویلفئیر اکاؤنٹ میں کس قانون کے تحت جاتی اور کہاں خرچ ہوتی ہے؟
یہ لاقانونیت، زورزبردستی اور فاشزم کی انتہا نہیں کہ نشئی پبلک ٹرانسپورٹررز کو کھلی چھٹی کیونکہ وہ ریگولر روزانہ اور ماہانہ دیتے ہیں جبکہ معزز شہری جو ٹریفک پولیس کی بجائے سرکار کو جائز ٹیکس دیتے ہیں ان کے ساتھ بدمعاشیاں کرکے نمبر گیم پوری کرو۔
تم جن اسٹوڈنٹس کا ریکارڈ خراب کرنا چاہتے ہو ضروری نہیں کہ وہ سارے بڑے ہوکر کرپٹ اور قانون شکن سرکاری ملازم ہی بنیں گے ان میں سے بہت سارے ایماندار لوگ بھی آئیں گے جو اس بدبودار کرپٹ اور قانون شکن سرکاری کلچر کو ختم کریں گے۔
پورے پنجاب کی پولیس کا ریکارڈ دیکھ لیں پولیس کی مدعیت میں مقدمات کی تعداد بامشکل ایک فیصد ہوگی جبکہ ٹریفک پولیس کی مدعیت میں ہر روز درجنوں ایف آئی آر درج ہو رہی ہیں۔ معزز شہریوں پر بدتمیزی کا الزام لگاکر ٹریفک پولیس کا استغاثہ دینا اختیارات سے تجاوز اور فسطائیت ہے۔
تم سڑکوں پر ٹریفک کی روانی اور ٹریفک قوانین کے نفاذ کیلئے مامور ہو یا اپنی فرسٹیشن نکالتے ہوئے شہریوں سے دست و گریبان ہونے کیلئے۔ نمبر گیم کے لیے معزز شہریوں پر ایف آئی آرز کرانا فاشزم کی انتہا ہے۔ ٹریفک پولیس معزز شہریوں کیلئے خوف کی علامت اور غنڈہ فورس بنتی جارہی ہے جبکہ پبلک ٹرانسپورٹر اور غیر قانونی پارکنگ والوں کیلئے تمام تر قانون شکن اقدامات کیلئے معاون فورس۔ تیز فلیش لائٹ کے خلاف کاروائی کی بجائے دن بہ دن فلیشر لائٹ استعمال کرنے والوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔