زبان غیر سے شرح آرزو کی جستجو

منشاقاضی حسبِ منشا

1

اردو زبان کے ادیبوں ، شاعروں ، انشا پردازوں ، خطیبوں اور سیاستدانوں میں ایک روشن و تابناک خیالات کے اظہار پر قدرت رکھنے والی نابغہ ء روزگار شخصیت ، عجوبہ ء روزگار خطیب ، طرحدار ادیب جن کے منہ سے لفظ لعل و گہر اور زمرد سے زیادہ قیمتی جھڑتے ہیں ، آپ کے افکار کی بلندی فلک الافلاک تک پہنچی ہوئی ھے ، یہ ہستی بولتی نہیں انمول موتی رولتی ہے ، میری مراد عسکری دانشور پروفیسر ڈاکٹر وحید الزماں طارق اذکار رفتہ برگیڈیئر سے ہے ، فارسی ، اردو ، عربی ، انگریزی اور پنجابی زبانوں پر نہ صرف عبور ہے بلکہ آپ ایشیائی ممالک کے حافظ و سعدی کے بعد پہلے فارسی زبان میں صاحب دیوان ہیں ، ہم نے آپ کو کوہستانی وقار کی طرح خاموش دیکھا ہے ، لیکن جب وہ بولتے ہیں تو پھر شاخ گفتار سے رنگا رنگ پھول توڑتے چلے جاتے ہیں ، یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی ماہ جبیں خرام ناز سے گل کترتی چلی جا رہی ہو ، انسان کا جی چاہتا ہے کہ وہ آپ پر سوالات کرتا چلا جائے اور آپ یوں ہی گل افشانی ء گفتار میں مصروف رہیں،

فقط اسی شوق میں پوچھی ہیں ہزاروں باتیں

میں تیرا حسن تیرے حسن بیاں تک دیکھوں

آپ کے سامعین آپ کے عاسقین ہیں وہ دور سے تشریف لاتے ہیں اور دیوانہ وار آپ کے منہ سے جھڑتے ہوئے پھول ڈائریوں میں اور پروفیسر عابدہ تو کمال کرتی ہیں وہ اپنے کیمرے کی آنکھ میں لمحات کے سے لمعات وحید الزماں طارق بھی محفوظ کر لیتی ہے موصوفہ جدید عہد کے ابلاغی ویپنز پر پوری دسترس رکھتی ہے اور ادارہ ثقافت اسلامیہ کی کوارڈینیٹر کے فرائض بھی سر انجام دے رہی ھے ، سامعین و ناظرین و عاشقین کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے

کہ

سرخی ء خار مغیلاں سے پتہ چلتا ہے

کہ تیرے دیوانے کہاں آئے اور کہاں تک پہنچے

اگر یقین نہیں آتا تو ان پی ایچ ڈی سامعین سے پوچھ لو جو گزشتہ روز ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور میں ایک یادگار تقریب سے خطاب کرنے والی شخصیت کو سن رہے تھے ۔ انہیں جناب پروفیسر ڈاکٹر مظفر عباس کا شکر گزار نہیں ہونا چاہئیے یہ فریضہ سر انجام ہم دیں گے کہ ڈاکٹر پروفیسر مظفر عباس کے ممنون احسان ہیں جنہوں نے ادارہ ء ثقافت اسلامیہ کی عظمت رفتہ کی بازیابی کیلئے اپنی زندگی وقف کر دی ہے ، طبرانی نے کہا تھا احسان کرنے والے کے ساتھ احسان کرو اور کچھ نہ ہو تو دعا ہی کرو اور یہ جان لو کہ احسان کا شکر ادا ہو گیا ، آللہ تعالیٰ شکر کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے، برگیڈیئر ڈاکٹر وحید الزماں طارق اور پروفیسر مظفر عباس دونوں ملت پاکستانیہ کے محسن ہیں ، پروفیسر مظفر عباس کا اخلاص اور محبت کا اظہار میں کرنے سے قاصر ہوں آپ دونوں حضرات اس گئے گزرے دور کی حسین و جمیل نشانیاں ہیں ، سکوت و شگفتگی اور معصومیت کا حسین امتزاج ہیں ، پنجاب کی تہذیبی اور لسانی سر گزشت کے عنوان پر
ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور نے شاندار ، کامیاب اور موثر ترین سامعین کے ساتھ ایک نشست زیر صدارت
لفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ سکندر افضل رکھی جس میں
مہمانان اعزاز محترمہ ندا حسن کی کارکردگی کا حسن ماحول میں چاندنی بکھیر رہا تھا اور جناب جمیل بھٹی کی خدمات کا اعتراف ہر زبان پر تھا ، ممتاز ماہر برقی ذرائع ابلاغ فضیلت مآب جناب ھارون الرشید عباسی کسی تقریب میں نہیں جاتے آج ان کو موجود پا کر دل مطمئن ہو گیا کہ عباسی خاندان کے دور اقتدار کی باز گشت دور اقدار میں پلٹ آئی ہے ،
پروفیسر ڈاکٹر مظفر عباس کا شاندار اہتمام تھا
وحید الزمان طارق
بول نہیں رہے تھے موتی رول رہے تھے ان کی گفتگو کا دورانیہ تین سے پانچ بجے سہ پہر تک تھا ، آپ نے اس موضوع پر ایک گھنٹہ انگریزی زبان میں تقریر کی اور مزید ایک گھنٹے تک حاضرین کے علمی سوالات کے مدلل جوابات دیئے ، ماحول کی فضاء انتہائی علمی ، فکری ، شعری اور ادبی تھی اور سامعین کا ذوق و شوق نہ صرف دیدنی تھا بلکہ ان کی ہمہ تن گوشی جادو اثر مقرر کی سریع الاثری کے حصار میں تھی ، پروفیسر ڈاکٹر وحید الزماں طارق نے گزشتہ تین ہزار برسوں کی تاریخ کے تناظر میں سیاسی ،ثقافتی اور لسانی مد و جزر کے حوالے سے ثابت کیا کہ پنجاب میں مقامی لوگ ہزاروں برس سے رہ رہے تھے لیکن آریاؤں نے انہیں اپنا غلام بنا کر انسانیت کے درجے سے گرا دیا۔ پھر سہل فارس آئے اور ان کے بعد سکندر کے ساتھ یونانی لوگ۔ آخر میں سیستان کے ساکا یا کوشان حکمران ان پر مسلط ہو گئے۔
پنجاب کے آبادکار کسان زیادہ تر سیستانی ساکا لوگ تھے جو وسطی ایشیاء کے راستے سائیبیریا سے آئے تھے۔ ان سے پہلے اہل فارس اور یونانیوں نے اس سرزمین پر قابض ہو کر اس علاقے پر گہرے اثرات مرتب کئے تھے۔ ساکا کوشان لوگوں نے سیالکوٹ کو اپنا دارالحکومت قرار دیا تو اس خطے میں ایک نئی قوم کا اضافہ ہو گیا۔ گُزشتہ عہد کی فارسی روایت ماند پڑتی چلی گئی تو غزنوی عہد میں پنجاب پر مسلمانوں کی حکومت قائم ہوئی تو لسانی خلا کو فارسی نے پورا کیا۔ جو مقامی زبانوں میں جذب ہو گئی۔ اردو اپنی پیاری ماں فارسی کا دودھ پی کر جوان ہوئی تھی ،
فارسی زبان اور اسلام اس خطے میں ایک ساتھ آئے تھے مقامی روایت پر زبردست انداز سے اثر انداز ہوئے تھے۔ اس وقت کی مقامی بے جان زبان ساروسینا اپبھرمش (سنسکرت: پراکرت: اووہنس کی بدلی ہوئی بے قاعدہ صورت) تھی جو امتداد زمانہ سے تبدیل ہو گئی تھی۔ اس زبان کا دور چھٹی صدی عیسوی سے تیرہویں صدی عیسوی تک تھا۔ اس زبان میں لسانی خامیاں تھیں اور اس میں اسماء کی کمی تھی۔ وہ جین مت کے دینی ادب اور ڈرامے کی زبان تھی۔ اسی دور میں مسلمان سلاطین کی حکومت کے ساتھ فارسی کا غلبہ ہوا جس نے اس زبان یعنی ساروسینا اپبھرمش(پراکرت

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.