لاہور میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی بھرمار – محکمہ کسٹمز کی مجرمانہ خاموشی

تحریر: ندیم بھٹی

5

لاھور، جسے پاکستان کا دل کہا جاتا ھے، آج کل ایک ایسے سنجیدہ مسئلے کی لپیٹ میں ھے جس نے نہ صرف ریاستیاداروں کی کارکردگی کو مشکوک بنا دیا ھے بلکہ ملکی معیشت، امن و امان اور قانون کی بالادستی کو بھی سختدھچکا پہنچایا ھے۔اس وقت مسئلہ ھے لاھور میں نان کسٹم پیڈ (NCP) گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا، جو نہ صرفقومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا رہی ہیں بلکہ قانون شکنوں کے اعتماد میں بھی اضافہ کر رہی ہیں۔ اسسب کے باوجود متعلقہ ادارے، بالخصوص محکمہ کسٹمز، مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ھے، جو یقیناً مجرمانہغفلت کے زمرے میں آتا ھے۔ یے شک نان کسٹم پیڈ گاڑیاں ٹیکس ادا نا کر کے قانون کا مذاق اڑاتے ہیں۔پاکستان میںکسی بھی درآمدی گاڑی کو سڑک پر لانے سے پہلے کسٹم ڈیوٹی کی مکمل ادائیگی لازمی ھے۔ اس عمل کے بغیر نہ توگاڑی کو رجسٹر کیا جا سکتا ھے اور نہ ہی اس کی قانونی ملکیت حاصل کی جا سکتی ھے۔ لیکن لاھور جیسے بڑےاور ترقی یافتہ شہر میں یہ صورتحال انتہائی تشویشناک ھے کہ سینکڑوں نان کسٹم پیڈ گاڑیاں دن دیہاڑے سڑکوں پررواں دواں ہیں۔ ان گاڑیوں میں نہ صرف پرانی جاپانی گاڑیاں شامل ہیں بلکہ لگڑری SUV، پراڈو، لینڈ کروزر، ویگو،حتیٰ کہ مہنگی اسپورٹس کارز بھی شامل ہیں جن کو اکثر رات کو نو بجے کے بعد لاھور کی معروف شاہراہوں پر دیکھاجا سکتا ھے جن کی قیمتیں کروڑوں میں ہیں۔ چوری کے بعد سینہ زوری کا عالم چیک کریں تو ان گاڑیوں پر نمبر بھیاپنی پسند کے خود ساختہ ھی لگائے ھوتے ہیں۔یہ منظر کسی غیر منظم ریاست کا نہیں ھوتا، بلکہ اس لاھور کا ھے جوپاکستان کا ثقافتی، تعلیمی اور انتظامی مرکز کہلاتا ھے۔ اس شہر میں اگر قانون کی اس طرح دھجیاں اڑائی جا رہی ہیںتو ملک کے دیگر حصوں میں کیا ہو رہا ہوگا، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔یہ گاڑیاں کہاں سے آتی ہیں یہ ایک سوالھے اور جس کے جواب میں تحقیقات سے یہ بات کھل کر سامنے آئی ھے کہ نان کسٹم پیڈ گاڑیاںبلوچستان،خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقوں کے راستے پاکستان میں داخل کی جاتی ہیں۔ چونکہ ان علاقوں میں کسٹمز کاکنٹرول انتہائی کمزور یا بعض صورتوں میں سرے سے موجود ہی نہیں ہوتا، اسمگلنگ مافیا کے لیے یہ جنت کا درجہرکھتے ہیں۔ ان علاقوں میں داخل ہونے والی گاڑیوں کو یا تو کلیئر ہی نہیں کرایا جاتا، یا جعلی کاغذات تیار کیے جاتےہیں۔ بعد ازاں یہ گاڑیاں اندرون ملک، بالخصوص لاھور، کراچی، پشاور، اور فیصل آباد میں فروخت کی جاتی ہیں۔یہگاڑیاں عام طور پر انتہائی منظم نیٹ ورک کے ذریعے فروخت کی جاتی ہیں، جن میں بعض بااثر شخصیات، کسٹمز کےبعض بدعنوان اہلکار، اور اسمگلرز شامل ہوتے ہیں۔ ان گاڑیوں کی فروخت خفیہ مارکیٹس میں کی جاتی ھے جہاں کوئیخریدار اگراثر و رسوخرکھتا ہو تو اسے بغیر کسی قانونی رکاوٹ کے گاڑی مل سکتی ھے۔محکمہ کسٹمز کی چھاپہمار ٹیم کے نچلے درجے کے لوگوں کی مجرمانہ خاموشی کی بات کریں تو وہ رویے کی لالچ میں یہ کام کر گزرتےھیں۔اگرچہ کسٹمز کا کام ملک میں غیر قانونی اشیاء کی درآمد اور آمد و رفت کو سختی سے روکنا ھے، لیکن زمینیحقیقت یہ ھے کہ لاہور جیسے بڑے شہر میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی موجودگی خود اس بات کا ثبوت ھے کہ کسٹمز کاادارہ یا تو نااہلی کا شکار ھے، یا پھر دانستہ طور پر آنکھیں بند کیے ہوئے ھے۔ میرے خاص ذرائع کے مطابق کئیکیسز میں یہ بات سامنے آئی ھے کہ کسٹمز کے بعض اہلکار ان گاڑیوں کی موجودگی سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں لیکن وہاس بارے میں کارروائی نہیں کرتے۔ بعض صورتوں میں تو مبینہ طور پر رشوت لے کر ان گاڑیوں کو نظر انداز کر دیاجاتا ھے۔ یا پھر ماھانہ طور پر کمیٹی ڈل جاتی ھے۔بے شک یہ صورتحال کسی بھی ریاستی ادارے کے لیے باعثِ شرمھے، کیونکہ اگر وہ ادارہ جو قانون کی نگہبانی پر مامور ھے خود ہی قانون کی خلاف ورزی کا حصہ بن جائے، توعوام کے لیے انصاف کی امید باقی نہیں رہتی۔ موجودہ حالات کے پیش نظر یہ گاڑیاں ملکی سیکیورٹی کے لیے سنگینخطرے کا باعث بھی بن سکتی ہیں۔ جس سے بڑی تباہی بھی ممکن ھے۔یہ مسئلہ محض مالی بدعنوانی یا ٹیکس چوریتک محدود نہیں، بلکہ اس کا تعلق قومی سلامتی سے بھی جڑا ھوا ھے۔ نان کسٹم پیڈ گاڑیاں چونکہ رجسٹر نہیں ہوتیں،ان کا کوئی ریکارڈ نیشنل ڈیٹابیس میں موجود نہیں ہوتا، لہٰذا یہ گاڑیاں دہشتگردی، اغوائ برائے تاوان، اسمگلنگ، اوردیگر جرائم کے لیے بھی استعمال ہو سکتی ہیں۔اور بعض علاقوں میں ھو بھی رہی ہیں۔پولیس کے لیے ایسی گاڑیوں کاسراغ لگانا تقریباً ناممکن ہوتا ھے۔ کئی کیسز میں مجرم نان کسٹم پیڈ گاڑی استعمال کرکے اور واردات کر کے فرار ہوجاتے ہیں، اور بعد میں ایسی گاڑی کو کسی دور دراز علاقے میں چھوڑ دیا جاتا ھے جہاں سے اس کا کوئی ریکارڈدستیاب نہیں ہوتا۔ جب محکمہ ایکسائز اور ٹریفک پولیس کے حکام سے اس بارے میں بات کی گئی تو ان کا مو¿قف ھےکہ ان کے پاس ایسی گاڑیوں کے خلاف کارروائی کا مکمل اختیار نہیں ہوتا۔ ایکسائز حکام کا کہنا ھے کہ چونکہ نانکسٹم پیڈ گاڑیاں رجسٹر ہی نہیں ہوتیں، لہٰذا ان کے خلاف کارروائی کا قانونی جواز نہیں ملتا جب تک کہ کسٹمز کا ادارہساتھ نہ دے۔ پولیس بھی اکثر ان گاڑیوں کو صرف اس وقت روکتی ھے جب کوئی شکایت ہو، وگرنہ سڑکوں پر روزانہہزاروں گاڑیاں ہونے کی وجہ سے ہر مشتبہ گاڑی کی چیکنگ ممکن نہیں جس سے پولیس اے وی ایل ایس ڈیپارٹمنٹکی بھی مجرمانہ غفلت سامنے آتی ھے اس تعیناتی سے پہلے جو آفیسر پورے لاھور کا انچارج رھا ھے۔ اس کیکارکردگی بھی متاثر کن نا تھی اور مزے کی بات وہ پولیس جونئر رینکر ڈی ایس پی ھو کر ایس پی کی سیٹ پر کامکرتا رھا ھے اور ڈیڑھ سال سیاہ اور سفید کا مالک بنا رھا جس کا ا نسپکٹر جنرل پنجاب پولیس کو پتا ھی نہیں چلا یاانہوں نے بھی اپنی آنکھیں دانستہ طور پر بند رکھیں تاہم، عوامی تاثر یہ ھے کہ ان اداروں میں بھیسفارشاوررشوتکا عنصر ملوث ہوتا ھے، جس کی وجہ سے طاقتور افراد کی نان کسٹم پیڈ گاڑیاں نہ صرف نظرانداز کی جاتیہیں بلکہ ان کے خلاف بولنے والوں کو خاموش کروا دیا جاتا ھے۔ ان حالات میں عوامی ردعمل اور بے چینی بھیسامنے آئی ھے۔لاھور کے شہری اس صورتحال پر سخت ناراض اور پریشان ہیں۔ ایک مقامی دوست تاجر، جو اپنی نئیگاڑی کی رجسٹریشن پر ایک لاکھ روپے سے زائد خرچ کر چکے ہیں، ان کا کہنا ھے ہم ٹیکس دیتے ہیں، رجسٹریشنفیس ادا کرتے ہیں، ہر سال ٹوکن ٹیکس بھرتے ہیں، اور پھر بھی پولیس ہماری گاڑی روک کر کاغذات چیک کرتی ھے۔لیکن وہ گاڑیاں جو غیر قانونی طور پر ملک میں داخل ہوئی ہیں، وہ آزادی سے سڑکوں پر گھومتی ہیں، اور کوئیپوچھنے والا نہیں۔ کیا یہ انصاف ھے؟سوال پیدا ھوتا ھے کی کسٹم کی انٹیلیجنس ٹیم کا کیا کردار ھے۔اس کے بارےمیں بھی لاھور کسٹم کی انچارج میڈم رباب سکندر کو اس خطرناک مسئلے پر حقیقی ایکشن کروا کر ملک کو کسیناگہانی صورت حال سے بچانا چاہیے۔ اس صورت حال میں ریاستی اداروں کی ذمہ داری ھے کہ وہ ان لوگوں کیحوصلہ شکنی کریں یہ صورتحال صرف محکمہ کسٹمز کے لیے نہیں بلکہ حکومت، ایف بی آر، اور قانون نافذ کرنےوالے تمام اداروں کے لیے ایک کھلا چیلنج ھے۔ اگر نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے خلاف مو¿ثر، مستقل اور منظم کارروائینہ کی گئی تو یہ مسئلہ مزید سنگین ہوتا جائے گا۔ضرورت اس بات کی ھے کہ ایک ملک گیر سروے کے ذریعے تمامنان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی نشاندہی کی جائے۔ان گاڑیوں کے مالکان کو نوٹس جاری کر کے قانونی کارروائی کی جائے۔کسٹمز کے اندر موجود بدعنوان عناصر کے خلاف احتسابی عمل شروع کیا جائے۔ پولیس اور ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کو جدیدنظام اور اختیارات فراہم کیے جائیں تاکہ وہ ان گاڑیوں کو روکتے وقت قانونی تحفظ محسوس کریں۔میڈیا، سول سوسائٹیاور عوام ان معاملات پر آواز بلند کریں تاکہ حکام کو عملی اقدامات پر مجبور کیا جا سکے۔لاھور میں نان کسٹم پیڈگاڑیوں کی بھرمار صرف ایک انتظامی ناکامی نہیں بلکہ قومی نوعیت کا مسئلہ بن چکا ہے۔ یہ صورتحال قانون کیبالادستی، ریاستی وقار، اور قومی معیشت پر ایک کاری ضرب ھے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان ایک قانون پسند،باوقار اور ترقی یافتہ ملک بنے، تو ہمیں اس طرح کی غیر قانونی سرگرمیوں کو فوری اور مستقل طور پر روکنا ہوگا۔یہصرف محکمہ کسٹمز نہیں، پوری ریاست کا امتحان ھے۔ اب فیصلہ ایف بی آر کے چیئرمین کے ہاتھ میں ھے کہ وہخاموش تماشائی بنے رہتے ہیں یا واقعی کچھ کرنے کی ہمت دکھاتے ہیں۔ بے شک عوام نان ٹیکس پیڈ گاڑیوں کاکھلےعام سڑکوں پر دوڑنے کے عمل کو اپنے ساتھ سنگین زیادتی تصور کرتے ہیں۔ جو ہرگز معاشرتی مساواتی عملنہیں

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.