لاہور لیڈز یونیورسٹی میں انٹیگریشن آف سوشل سائنسز 2024 کے موضوع پر تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی

56

تحریر: عامر رفیق بٹ، ڈپٹی ڈائریکٹر، ڈی جی پی آر

 

تعلیم کسی بھی قوم کی تعمیر و ترقّی میں بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔
کوئی ملک تعلیم کے میدان میں جتنا بہتر ہو گا، زندگی کے ہر شعبے میں اُتنی بہتری نظر آئے گی۔
تعلیم معاشرتی، اقتصادی، تہذیبی و ثقافتی حتّٰی کہ ہر میدان میں ترقّی کی ضامن ہے۔
لہٰذا تعلیمی نظام کا ارتقاء ہر قوم کی فکر کا مرکز رہا ہے۔
اور فکر ہی قوموں کی زندگی کی علامت ہے۔ کیونکہ کوئی بھی فکری عمل اپنے
لاوجود سے وجود میں ضرور ڈھلتا ہے، اور اس تبدیلی کے لئے درکار عرصہ کی طوالت کا انحصار فکر کی شدّت، مضبوطی
اور اُس کے وجود کی ناگزیریت پر ہوتا ہے۔
تعلیم اگر فکر کا حصہ نہ بھی بنے، تب بھی اس کی نا گزیریت محکم ہے۔
اور اگر یہ فکر کا حصہ بن جائے تو تبدیلی کے لئے درکار عرصہ کی طوالت زیادہ نہیں رہتی۔
خوش قسمتی سے قومی سطح پر ہمارے ہاں اس فکر کی جڑیں بنتی جا رہی ہیں۔

دنیا جس تیز رفتاری سے ترقی کر رہی ہے، اور علم و ہنر کو جو مقام موجودہ دور میں حاصل ہے، اس سے روگردانی کرنے والی قومیں صفحہء ہستی پر اپنی موجودگی کو زیادہ دیر قائم نہیں رکھ سکیں گی۔
ایک مضبوط، ترقّی یافتہ اور ثمر آور تعلیمی نظام ہی مضبوط اور
مہذب قوم کی تعمیر کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کر سکتا ہے۔
آنے والے وقتوں میں جو قومیں تعلیمی میدان میں عالمی سطح پر اپنے
علمی حصّے کی شراکت نہیں کر پائیں گی
وہ ترقّی یافتہ اقوام کے سامنے ہمیشہ دست بستہ رہیں گی اور عزّت و احترام سے
محرومی ہمیشہ اُن کا مقّدر رہے گی۔
بدقسمتی سے فکری سطح پر تعلیم کی ضرورت اور خواہش کے با وجود
عملی میدان میں ہمارے ہاں صورتِ حال پہلے سے خراب نہیں تو بہتر بھی نہیں کہی جا سکتی۔
اور اس کی ذمہ داری کسی ایک فرد، ادارے یا طبقے پر نہیں ڈالی جا سکتی۔

عالمی اور ملکی سطح پر یہ بحث رہی ہے کہ سوشل سائنسز کے بغیر
تعلیمی نظام اچھے انسان پیدا نہیں کرسکتا۔ عصر حاضر میں
اس وقت تعلیمی نظام کا انحصار پر ہے باالفاظ دیگر سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی ہی
تعلیم حاصل کرنے کی کلید ہے۔
حکومت کی طرف سے بھی انہیں موضوعات پر زیادہ سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ خالص سائنس کے موضوعات بہت اہمیت کے حامل ہیں
لیکن اس کا قطعاً مطلب نہیں کہ آپ سوشل سائنسز کو سرے سے بھول جائیں
دنیا میں تمام دانشوروں اور فلاسفروں کا تعلق سوشل سائنسز ہی سے ہے
دراصل سوشل سائنسز کا آغاز اگر اس کی بنیادی افادیت سے کریں تو یہ عیاں ہوتا ہے کہ
سماجی اور بنیادی دیکھ بھال اور انصاف کے نظام کا سوشل سائنسز سے گہرا تعلق ہے
آج کمرشل دور میں بھی دیکھیں تو تمام کاروبار کے رجحانات بھی سوشل سائنسز کے بغیر ترقی نہیں کرسکتے۔

دنیا بھر میں امن کے لیے بھی سوشل سائنسز بنیادی کردار ادا کرتی ہے
یہ زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتی ہیں تہذیبوں کا ارتقا سوشل سائنسز کے بغیر ممکن نہیں ہے
دو صدیوں میں علم نفسیات نے ذہن کے کئی روزن روشن کردئیے ہیں۔

اسی مقصد کے تحت لاہور لیڈز یونیورسٹی میں انٹیگریشن آف سوشل سائنسز 2024 کے موضوع پر تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس کی افتتاحی تقریب آج منعقد ہوئی۔
تقریب سے پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرپرسن پروفیسر ڈاکٹر شاہد منیر، چیئرمین اخوت
ڈاکٹر محمد امجد ثاقب، عمان سے اسلامک اسکالر ڈاکٹر خالد بن محمد الابدالی،
ملائیشیا سے مسٹر ایم روسلی بن عجمی اورمسٹر ایم تجمل نے خطاب کیا۔ 
کانفرنس میں
عباس رانا، ڈی جی QAED اور ڈی جی پی آر کے افسران ذوالفقار علی اور  مقبول احمد ملک نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔
اس موقع پر چیئرمین لاہور لیڈز یونیورسٹی میاں ظہور احمد وٹو، وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ندیم بھٹی
ایگزیکٹو ڈائریکٹر حمزہ ظہور وٹو، پروفیسر ڈاکٹر رفاقت علی اکبر، ڈین آف سوشل سائنسز
رجسٹرار ڈاکٹر سعید احمد وٹو، تمام چیئرپرسنز، فیکلٹی ممبران اور طلباء و طالبات بھی موجود تھے.

پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرپرسن پروفیسر ڈاکٹر شاہد منیر نے لاہور لیڈز یونیورسٹی کی جانب سے سوشل سائنسز کے انضمام پر پہلی بین الاقوامی کانفرنس کو سراہتے ہوئے طلبا پر زور دیا
کہ وہ تحقیق کریں اور تحقیق کے ذریعے معاشرتی مسائل کو سمجھ کر اخلاقیات، حوصلہ افزائی کی طاقت اور سماجی اصولوں کی نشوونما اور اصلاح میں معاشرے کی مدد کریں۔
چیئرمین پی ایچ ای سی نے طالبات کو خود کو بااختیار بنانے اور بہتر کیریئر کے لیے خود کو تعلیم دینے پر روشنی ڈالی۔

عُمان سے انٹرنیشنل اسلامک اسکالر ڈاکٹر خالد بن محمد الابدالی، ملائیشیا سے
مسٹر ایم روسلی بن عجمی نے لاہور لیڈز یونیورسٹی کا شکریہ ادا کیا کہ
انہوں نے انہیں مدعو کیا اور اس بات پر روشنی ڈالی کہ تمام مسائل کو بحث و تحقیق سے حل کیا جا سکتا ہے۔
مزید کہا کہ  بین الاقوامی اسلامی سکالرز مہمان نوازی اور گرمجوشی سے استقبال کرنے پر
لاہور لیڈز یونیورسٹی کے بے حد مشکور ہیں۔
مقبول احمد ملک، ڈائریکٹر پریس لاز، ڈی جی پی آر نے طلباء سے خطاب کیا کہ
وہ ماس کمیونیکیشن اور پبلک ریلیشن کے شعبے میں محنت کریں۔ ڈائریکٹر پریس لاز نے ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ لاہور لیڈز یونیورسٹی کے طلباء کو انٹرن شپ اور مطالعاتی دوروں کی پیشکش کی
اور طلباء کی پیشہ وارانہ تربیت کا وعدہ کیا۔

وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ندیم بھٹی اور سوشل سائنسز کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر رفاقت علی اکبر نے
آرگنائزنگ کمیٹی کی کاوشوں کو سراہا جس میں شعبہ جات کے سربراہان، فیکلٹی ممبران اور شرکاء شامل تھے۔
پہلی بین الاقوامی کانفرنس کی افتتاحی تقریب کے اختتام پر، وائس چانسلر نے
تمام قومی اور بین الاقوامی مہمانوں کو شکریہ کے ساتھ یادگاری تحائف تقسیم کئے۔
مزید برآں، چیئرپرسن ڈیپارٹمنٹ آف ماس کمیونیکیشن ڈاکٹر ہلال فاطمہ اور
پروفیسر آف ماس کمیونیکیشن حنفیہ نے بھی خصوصی شرکت کی
جو کہ نہایت معزز اور علم دوست انسان ہیں اور ان کا شمار تجربہ کار پروفیسرز میں ہوتا ہے۔

درحقیقت جدید ٹیکنالوجی زندگی کے ہر شعبہ میں داخل ہوگئی ہے۔
ہر دن کوئی نہ کوئی ایجاد اور نئے طور طریقے ہماری زندگی میں شامل ہورہے ہیں۔
جیب میں رکھے جانے والے ایک چھوٹے سےموبائل فون میں ہمیں انفارمیشن کے حصول سے متعلق ہر سہولت دستیاب ہے۔
جیسے فون سے بات کرنا ویڈیو کالنگ، انٹرنیٹ براؤزنگ، فیس بک چیٹنگ، ای میل کی سہوت اور بہت کچھ۔آج کے اس دور میں جہاں ٹیکنالوجی کے بڑھتے اثرات نے زندگی کو تیز رفتار بنادیا ہے۔
وہیں تعلیم کے شعبے میں بھی ٹیکنالوجی کا اثر محسوس کیا جارہا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے ذرائع سے استفادہ کرتے ہوئے اساتذہ اسکول ،کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر پیشہ تدریس کو اثر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر سکتے ہیں۔

تعلیمی ادارے بھی اپنے انتظامی امور میں ٹیکنالوجی کو اختیار کرتے ہوئے اپنے انتظامیہ کو بہتر اور فعال بنا سکتے ہیں۔ آج تعلیم کے حصول کے ذرائع میں کتابوں کے علاوہ الیکٹرانک ذرائع جیسے ای کلاس روم ،اسمارٹ کلاس، اوور ہیڈ پروجیکٹر، کمپیوٹر سی ڈیز ،لیپ ٹاپ وغیرہ شامل ہیں،
جن کی مدد سے عصر حاضر کا استاد اپنے نئے زمانے کی تعلیم کو بہتر بنا سکتا ہے۔
بعض تعلیمی ادارے ماہرین کمپیوٹر اور گرافکس و اینیمیشن کی مدد کے ساتھ کتابوں کے روایتی سائنسی، سماجی علوم اور ریاضی کے اسباق کو معیاری بنارہے ہیں۔
طلبا کو خصوصی انٹرنیٹ پروگرام کے ذریعے تعلیم کے علاوہ کسی موضوع پر پہلے سے دستیاب سی ڈی کا پروگرام دکھاتے ہوئے بھی تعلیم دی جاسکتی ہے۔
آج کل کتابوں کی دکانوں میں چھوٹے بچوں کے لئے نظموں کے سی ڈی،انگریزی بول چال سیکھنے کی سی ڈی ،وائیلڈ لائف سی ڈی وغیرہ دستیاب ہیں۔جن طلبا کو کمپیوٹر پر ٹائپنگ آتی ہو وہ کوئی سبق ٹائپ بھی کر سکتے ہیں۔ ب
عض طلباء کو ڈرائینگ میں دلچسپی ہوتی ہے۔
ان طلباء کو پینٹنگ اور ڈرائینگ میں ماہر بنانے کے لئے کمپیوٹر کے ورڈ آرٹ سافٹ ویر سے مدد لی جا سکتی ہے۔ کالج کی سطح پر لائبریری کو بھی عصر حاضر کی ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہونا ضروری ہے۔

مختصر بات یہ ہے کہ جس دن اس ملک اور معاشرے کی دیواریں تعلیم پر کھڑی کی جائیں گی
اس دن ہمارے ملک اور معاشرے سے دہشتگردی، انتہاپسندی، فرقہ واریت، کرپشن، لوٹ مار سمیت دیگر ناسوروں کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو جائے گا۔
ریاست کے بنیادی پہلوؤں کی روشنی میں تعلیم کی ریاستی ذمہ داری کو سمجھا جا سکتا ہے۔

05/03/24

https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/03/p2-1-scaled.jpg

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.