سحاق ڈار کا دورہ کابل۔ باہمی مسائل سمجھنے میں مدد ملے گی

آج کا اداریہ

3

نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا مختصر دورہ کابل
افغان حکام سے ملاقاتیں اور میڈیا سے پرامید گفتگو
کابل میں اردو میں گفتگو کرتے ہو ئے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان نے اتفاق کیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف کسی بھی غلط سرگرمی کے لیے اپنی سرزمین استعمال نہیں ہونے دیں گے اور اس حوالے سے سخت ترین کارروائی کریں گے۔

اسحاق ڈار نے گزشہ روز کابل کے ایک روزہ دورے کے دوران عبوری افغان وزیر اعظم حسن اخوند اور وزیر خارجہ امیر خان متقی سے ملاقاتیں کیں۔

جس کے بعدایک پریس کانفرنس میں ان ملاقاتوں میں ہونے والے اہم فیصلوں کے بارے میں بتایا کہ دونوں ممالک کے درمیان سرحد پار تجارت کو تیز کرنے کے لیے 30 جون سے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم فعال کر دیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ باقاعدہ تجارتی نمائشوں کے انعقاد اور تجارتی وفود کے تبادلے پر بھی اتفاق ہوا ہے تاکہ دونوں ممالک کے باہمی مفاد میں تجارت کے فروغ کا سلسلہ جاری رکھا جا سکے۔

اسحاق ڈار کے مطابق افغان ٹرانزٹ سامان کے لیے پاکستانی حکام اے پلس پلس کیٹیگری کی انشورنس گارنٹیز کو قبول کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ٹرانزٹ ٹریڈ کی لاگت کم کرنے کے لیے ابتدائی طور پر 30 جون سے ہر ماہ 500 کنٹینرز کے لیے ’کراس سٹفنگ‘ کی سہولت بطور پائلٹ پراجیکٹ فراہم کی جائے گی۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ طورخم میں ITTMS (انٹیگریٹڈ ٹرانزٹ ٹریڈ مینیجمنٹ سسٹم) بھی 30 جون تک فعال کر دیا جائے گا۔

پاکستان میں افغان مہاجرین کی واپسی کے حوالے سے اسحاق ڈار نے کہا کہ حکومت اس بات کو یقینی بنا رہی ہے کہ یہ عمل مکمل عزت اور وقار کے ساتھ انجام پائے اور کسی فرد کی توہین نہ ہو۔

دورۂ افغانستان کے دوران دی گئی مہمان نوازی پر اظہارِ تشکر کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے افغان وزیر خارجہ کو بطور اپنا دوسرا گھر پاکستان کے دورے کی دعوت بھی دی۔

انہوں نے کہا کہ دوطرفہ تعلقات میں مثبت پیش رفت کو جاری رکھنے کے لیے ایسے باقاعدہ تبادلے ناگزیر ہیں۔

افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے آج اپنے پاکستانی ہم منصب اسحاق ڈار سے ملاقات میں اپریل کے آغاز سے اب تک ہزاروں افغان شہریوں کی ’جبری ملک بدری‘ پر ’گہری تشویش اور مایوسی‘ کا اظہار کیا۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق پاکستان نے اس مہینے کے آخر تک آٹھ لاکھ سے زیادہ افغان شہریوں کو ملک سے نکالنے کے لیے مہم پر سختی سے عمل شروع کر رکھا ہے۔

ان افغان شہریوں کے رہائشی اجازت نامے منسوخ کیے جا چکے ہیں۔ ان میں بعض وہ افراد بھی شامل ہیں جو پاکستان میں پیدا ہوئے یا کئی دہائیوں سے یہاں رہائش پذیر ہیں۔

افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کی اسحاق ڈار سے ملاقات کے حوالے سے افغان وزارت خارجہ کے نائب ترجمان ضیا احمد نے ایکس پر پوسٹ میں کہا: ’متقی نے پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کی صورت حال اور ان کی جبری ملک بدری پر گہری تشویش اور مایوسی کا اظہار کیا۔‘

انہوں نے مزید لکھا کہ ’انہوں (متقی) نے پاکستانی حکام پر زور دیا کہ وہ وہاں (پاکستان میں) مقیم افغانوں اور یہاں آنے والوں کے حقوق کی پامالی کو روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کریں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ اسحاق ڈار نے افغان حکام کو یقین دہانی کرائی کہ افغانوں کے ساتھ ’بدسلوکی نہیں کی جائے گی۔‘

اسحاق ڈار نے افغانستان کے عبوری وزیر اعظم ملا محمد حسن اخوند سے بھی ملاقات کی، جس میں سلامتی و تجارت جیسے معاملات پر گفتگو ہوئی۔

پاکستانی وزارت خارجہ کے ایک بیان کے مطابق دونوں رہنماؤں نے سلامتی، تجارت، ٹرانزٹ تعاون اور عوامی تعلقات سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔

ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان برادرانہ تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کے لیے اعلی سطح پر تبادلوں کی اہمیت کے حوالے سے عزم کا اعادہ کیا گیا۔

قبل ازیں اسحاق ڈار کابل پہنچے تو ہوائی اڈے پر افغان حکومت کے ڈپٹی وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد نعیم وردگ، ڈی جی وزارت خارجہ مفتی نور احمد، چیف آف سٹیٹ پروٹوکول فیصل جلالی بھی شامل نے ان کا استقبال کیا۔

اس موقعے پر افغانستان میں پاکستان کے ہیڈ آف مشن سفیر عبید الرحمٰن نظامانی اور سفارت خانے کے افسران بھی موجود تھے۔

بعد ازاں اسحاق ڈار افغان وزارت خارجہ پہنچے جہاں مولوی امیر خان متقی نے ان کا استقبال کیا۔

وزیر خارجہ اسحاق ڈار ایک اعلیٰ سطح کے وفد کی قیادت کر رہے ہیں جس میں افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندے صادق خان، وزیر اعظم کے نمائندے خصوصی ایم طارق باجوہ، تجارت، ریلوے اور داخلہ کے وفاقی سیکرٹریز کے علاوہ دیگر اعلی حکام شامل ہیں۔
اسلام آباد نے اپریل کے آخر تک آٹھ لاکھ سے زائد افغان باشندوں کو بے دخل کرنے کے لیے ایک سخت مہم شروع کی ہے جن کے رہائشی اجازت نامے منسوخ ہو چکے ہیں، جن میں کچھ ایسے بھی ہیں جو پاکستان میں پیدا ہوئے تھے یا کئی دہائیوں سے وہاں مقیم تھے۔

افغان خاندانوں کے قافلے چھاپوں، گرفتاریوں یا خاندان کے افراد سے الگ ہونے کے خوف سے ہر روز سرحدی گزرگاہوں کی طرف جا رہے ہیں۔

پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے جمعے کو ایک پریس بریفنگ کے دوران کہا تھا کہ  اسحاق ڈار ہفتے کو ایک روزہ دورے پر کابل جائیں گے جہاں باہمی دلچسپی کے امور کے علاوہ افغان سرزمین پر عسکریت پسندوں کی پناہ گاہوں کا معاملہ بھی اٹھایا جائے گا۔
منگل کو بین الاقوامی تنظیم برائے نقل مکانی  (آئی او ایم) نے کہا کہ پاکستان نے اپریل کے آغاز سے تقریباً 60 ہزار افغانوں کو نکال دیا ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان میں تقریباً 30 لاکھ افغان مقیم ہیں، جن میں سے بیشتر کئی دہائیوں سے یہاں رہ رہے ہیں یا وہاں پیدا ہوئے ہیں، جو تسلسل سے ہونے والی جنگوں کے بعد یہاں پناہ لیے ہوئے تھے۔

پاکستان حکومت نے آٹھ لاکھ سے زائد افغانوں کے رہائشی اجازت نامے منسوخ کر دیے ہیں اور ان افراد کو بھی ملک بدری کے حوالے سے خبردار کیا ہے

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.