اب پرندےنہیں آئیں گے

ڈیرے دار سہیل بشیر منج

4

فلسطین میں معصوم مسلمانوں کی نسل کشی نصف صدی سے جاری ہے جس میں اب تک لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں کو لقمہ اجل بنا دیا گیا لیکن جو ظلم گزشتہ ڈیڑھ سال سے جاری ہے اس نے تو تمام حدیں ہی پار کر دیں درحقیقت جو لوگ دنیا میں دجالی نظام نافذ کرنے کے لیے گزشتہ چار صدیوں سے کوشش کر رہے ہیں اب وہ ایک فیصلہ کن جنگ لڑنے کا فیصلہ کر چکے ہیں وہ بے خوف و خطر ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنی کاروائیوں کو مزید تیز اور منظم کرتے جا رہے ہیں یہودی لابی فری میسنز اور عالم اسلام کے ازلی دشمن یہ کاروائیاں کرتے رہیں گے انہوں نے ہر طرح کا ٹیسٹر لگا کر دیکھ لیا امت مسلمہ کو مکمل طور پر سٹڈی کر لیا اور وہ جانتے ہیں کہ جتنا بھی ظلم کر لیں یہ چھپن اسلامی مردے کبھی ان کے خلاف آواز نہیں اٹھائیں گے ان کے خلاف کبھی اعلان جنگ نہیں کریں گے کیونکہ ان میں عزت غیرت اور بہادری ختم ہو چکی ہے ان میں تو اتنی اخلاقی جرات نہیں ہے کہ یہ اسرائیلی پروڈکٹ کا بائیکاٹ ہی کر دیں اور یہی بہترین وقت ہے کہ گریٹر اسرائیل کے ناپاک منصوبے کو عملی شکل دے دی جائے اور وہ اسی طرف گامزن ہیں
کبھی یہودیوں کی طرف سے جاری کردہ گریٹر اسرائیل کا نقشہ ملا حظہ فرمائیے گا تو آپ کو ان کے عزائم کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا آج سعودی عرب، دبئی بحرین، کویت، قطر اور دوسرے عرب ممالک یہ خیال کر رہے ہیں کہ جنگ صرف
یمن، شام اور ایران تک محدود رہے گی لیکن شاید یہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں حالانکہ یہ بخوبی جانتے ہیں کہ جب
آگ لگے گی تو سب کے گھر اس کی لپیٹ میں آئیں گے
آج اگر تم سب غزہ اور مسجد اقصی کے لیے نہ نکلے تو کل تمہارے لیے بھی کوئی نہیں نکلے گا ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جیسے ہی اسرائیل نے بے گناہ فلسطینیوں کا قتل عام شروع کیا تھا چھپن اسلامی ممالک اس جنگ میں کود پڑتے اب تک نہ صرف جنگ ختم ہو چکی ہوتی بلکہ اسرائیل کی گلی گلی میں صف ماتم بچھائی جا چکی ہوتی اور شاید اسرائیل صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہوتا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا بڑے بڑے اسلامی ممالک جنہیں اللہ کریم نے بے پناہ دولت اور طاقت سے نوازا ہوا ہے خاموش تماشائی بن گئے اور اس خوف سے کہ اپنی بلوں میں چھپ گئے کہ کہیں مارے نہ جائیں لیکن ان حالات میں سلام پیش کرتا ہوں یمن اور شام کو جن کے پاس مال و دولت اور بے پناہ طاقت تو نہیں تھی لیکن جذبہ ایمانی سے سرشار تھے انہوں نے یہودیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ابھی تک لڑ رہے ہیں اللہ کریم سے دعا گوہ ہوں کہ ان کی مدد اور نصرت فرماجو تیرے دین کی سربلندی کے لیے جہاد کر رہے ہیں اور ان ممالک کو غیرت اور ہمت عطا فرما جو بزدل بن کر اپنے ملکوں میں بیٹھ کر انسانیت کا قتل عام دیکھ رہے ہیں
ذرا سوچیے کہ اس جنگ کا وہ معصوم شہید بچہ جس کی عمر ابھی ایک سال بھی نہیں تھی جب روز محشر سعودی حکمرانوں کے خلاف میرے رب کی بارگاہ میں پیش ہوگا اپنی شہادت اور اپنے ماں باپ پر ہونے والے ظلم کی داستان سنائے گا تو پھر کیا ہوگا
سوچیے کہ جب وہ نوجوان لڑکی جو صہونی فوجیوں کے سامنے پتھر ہاتھ میں لیے مقابلہ کر رہی تھی اور شہادت کے رتبے پر فائز ہو گئی جب بارگاہ الہی میں اپنی شہادت کا منظر نامہ پیش کرے گی تو ان چھپن اسلامی مردوں کا کیا بنے گا
سوچیے جب وہ بوڑھی ماں جو اپنے بارود میں جلسے ہوئے اکلوتے بیٹے کی لاش لے کر میرے رب کے حضور پیش ہوگی اور ترکی، بحرین، کویت،قطر ،دبئی کے بادشاہوں کی شکایت کرے گی تو ان کا انجام کیا ہوگا سوچیے جب وہ بوڑھا جس کے پانچ جوان بیٹے اس جنگ میں لقمہ اجل بن گئے ایٹمی طاقت والے اسلامی جمہوریہ پاکستان، افغانستان، ملائشیا، انڈونیشیا کے حکمرانوں کے خلاف مقدمہ درج کروائے گا تو کیا بنے گا
سوچیے گا ضرور
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان نے ہمیشہ ہر عالمی پلیٹ فارم پر اسرائیل کی مخالفت کی ہر پلیٹ فارم پر اسرائیل کے ظلم کی کہانیاں بیان کی ہیں لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے اقوام متحدہ تو ایک ڈرامہ ہے جو دنیا میں امریکہ اسرائیل سمیت تمام کفار کا وکیل ہے
بہتر ہوگا کہ ستاون اسلامی ممالک اور ساتھ میں چین روس ،نارتھ کوریا اور ان کے علاوہ جتنے بھی ممالک اسرائیل اور امریکہ کی مخالفت کرتے ہیں ساتھ ملا کر اپنی اقوام متحدہ بنا لیں جن میں مسلمانوں کے تحفظ حقوق اور جان و مال کی حفاظت کی بات کی جا سکے میرے خیال میں اب تمام اسلامی ممالک کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ انہوں نے کس کے ساتھ چلنا ہے
گزشتہ روز پاکستان کہ ہر شہر گاؤں گلی کوچوں میں لبیک یا اقصی ریلیاں نکالی گئیں مساجد میں فلسطین کے مسلمانوں کے لیے دعائیں کی گئیں قومی اسمبلی نے اکثریت رائے سے اسرائیل کی مخالفت میں قرارداد منظور کی سب جماعتوں نے اسرائیل کی مخالفت میں ووٹ دیا لیکن ان میں سے جو فری میسنز اور نیو ورڈ آرڈر کہ حامیوں کے ساتھی تھے انہوں نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ نہیں دیا
ہمیں بحیثیت قوم بجائے اسرائیل کو بددعائیں دینے اس کی مخالفت میں ریلیوں جلسے جلوسوں کے فوری طور پر اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا چاہیے اگر ہم ڈائریکٹ ان پر حملہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے تو کم از کم انہیں معاشی میدان میں ہی شکست دینے کی کوشش کر لیں اور فیصلہ کر لیں کہ دوبارہ ایک پیسہ بھی ایسا خرچ نہیں کریں گے جس کا فائدہ اسرائیل کو ہو تو اس سے بھی ہم اسرائیل کو ایک بڑا نقصان پہنچا سکتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو فلسطینیوں کے لیے خوراک ادویات اور خیموں کا انتظام کرنا چاہیے اور

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.