سوشل میڈیا اور گھریلو کام

59

آج ہماری حالت ایسی ہوچکی ہے کہ تین تین گھنٹے فلمیں دیکھنے کے لیے، چھ ، چھ گھنٹے کرکٹ دیکھنے کے لیے، بارہ بارہ گھنٹے سمارٹ فون پر گمیز کھیلنے کےلیے اور پندرہ ، پندرہ گھنٹے سوشل میڈیا دیکھنے کے لیے ہمارے پاس وقت ہے ۔ لیکن فرصت کے باوجود بھی ہمارے پاس روزانہ پچاس منٹ نہیں ہوتے، کہ ہم کم ازکم پانچ وقت کی نماز ادا کرسکیں۔ نیک کام کرنے کے لیے یا آپس میں مل بیٹھ کر دُکھ سُکھ کی باتیں کرنے کےلیے ہمارے پاس دو چار منٹ بھی نہیں ہوتے۔

اِسے بدقسمتی ہی کہا جاسکتا ہے کہ ہماری مائیں بچیوں کو کھانا پکانے ، روٹی بنانے، برتن مانجھنے ، کپڑے دھونے اور گھر کی صفائی کرنے کا مکمل طریقہ تو سیکھاتی ہیں ۔ مگر افسوس بچوں کی ایسی تربیت کہیں نہیں کی جاتی کہ وہ بھی گھر کے امور سیکھ کر ان کو خود نمٹا سکیں ۔ یہ انتہائی درجہ گھٹیا بات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب یہ بچے بڑے ہوتے ہیں تو کھانا اور پانی تک بوڑھی والدہ سے بار بار منگوا رہے ہوتے ہیں۔

جوں ہی والدہ بیمار ہوتی ہے ، یہ لاڈلے کھانے پینے ، برتن مانجھنے اور کپڑے استری کرنے کا طریقہ نہ سیکھنے کی وجہ سے اپاہج ہو کر رہ جاتے ہیں۔

والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو بچپن میں لاڈ پیار دینے کی بجائے، خانہ داری اُمور سیکھائیں؛ تاکہ وہ کسی پر بوجھ نہ بنیں۔ یقین مانیں؛ آج کل بچیوں سے زیادہ بچوں کا گھریلو طور والدین کے ساتھ ہاتھ بٹانا ضروری ہو چکا ہے ۔

ہمیں اسلام نے ہر معاملے میں ضابطہء حیات عطا کیا۔ جب ہمارے پیغمبر نے خود اپنے مبارک ہاتھوں سے اپنے کام سر انجام دیے تو ہم کس باغ کی مُولی ہیں۔ ہمارے دین میں ہاتھ سے کمانے والے کو اللّٰہ کا دوست قراد دیا گیا ہے۔ مردوں کا گھریلو کام کرنے میں عار کیسی؟

والدین اور گھر والوں کی خدمت کا سب سے بہترین ذریعہ یہ ہے کہ کبھی کبھی سب گھر والے ایک جگہ بیٹھے ہوں اور بیٹا کھانا بنا کر خود سب کو پیش کرے ۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جب جوان اولاد والدین کی یوں خدمت کرے گی تو معاشرے میں کتنا بڑا انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔

یہ درست ہے کہ مرد کےلیے گھر کے نان و نفقعہ کا بندوبست کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ ہاں مگر یہ کون سی کتاب میں لکھا ہے کہ ہماری مائیں ، بیٹیاں ، بہنیں اور بیویاں ساری عمر بیماریوں اور بڑھاپے کے باوجود کھانا بناتی رہیں ، گھر کی صفائیاں کرتی رہیں اور کُہن سالی کے باوجود کپڑے دُھوتی رہیں۔

تمام مرد حضرات گھریلوں کام کاج میں خواتین کا ہاتھ بٹا کر اس سُنت کو زندہ کیجیے اور سو شہیدوں کا ثواب حاصل کیجیے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.