دنیا کا سفر بہت مختصر ہے اور میں سمجھتا ہوں اس سفر کا زاد راہ پیاراور خلوص ہے ،دوسروں کیلئے ہمدردی اور الفت ہے ،خوش اخلاقی سے ملنا ہی محبت کا زینہ ہے ،میں سمجھتا کہ یہ زندگی محبت کے لئے ہی ناکافی ہے پتہ نہیں لوگ نفرت کےلئے کہاں سے وقت نکال لیتے ہیں ،گزشتہ دنوں مجھے جب دل کا دورہ پڑنے پر ہسپتال داخل ہونا پڑا تو بہت سارے بچھڑے ہوئے دوستوں کی زیارت کا موقع ملا مجھے روحانی اطمینان ملا ،برسوں بعد کئی دوستوں کے فون آئے ،ایک ایک کا ذکر کرنے لگوں تو پوری رات ہی ڈھل جائے اور پھر شائد کسی ایک بھی دوست کےخلوص اور ہمدردی کا حق ادا نہ کرسکوں ۔لیکن ایک واقعہ بہت عجیب ہوا کہ مجھے دسمبر 2024کے اوائل میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں داخل کرایا گیا جہاں میں ایک ماہ تک رہا اس دوران بڑے ہی ملنسار دوست اور ماضی کے ایک دبنگ افسر سید گلزار مشہدی کا فون آیا جو مجھے تادیر دلاسے دیتے رہے اور انہوں نے یہ بات کئی بار دہرائی کہ “شاہ جی بے فکر رہیں میں بھی دل کے عارضے پر” بائی پاس”کروا چکا ہوں اور ٹھیک ہوں آپ تو مجھ سے بہت چھوٹے ہیں انشاء اللہ آپ کو کچھ نہیں ہوگا “مجھے بار بار تسلیاں اور دلاسے دینے والے گلزار مشہدی کے بارے میں دوسرے ہی روز ہمارے مشترکہ دوست کرار حسین کاظمی نے اطلاع دی کہ وہ تو اب اس دنیا میں نہیں رہے ،گلزار مشہدی ساری زندگی محبتیں بانٹتے رہے انکے انتقال کا ہمیشہ قلق رہے گا ،گلزار مشہدی مرحوم کے صاحبزادے سے تعزیت کا سید کرار شاہ کیساتھ پروگرام بنایا مگر زندگی کا کوئی اعتبار کہاں ہے ؟۔میرے دل اور گردے کے امراض نے مجھے ہسپتالوں کے گرد طواف پر مامور کئے رکھا ،ابھی کچھ دن پہلے میری تیمارداری کیلئے ملنے کیلئے آئے قومی اخبار کے مدیر زاہد رفیق نے مجھے گردوں کے علاج کی خاطر ہر حال میں پی کے ایل آئی (پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ اینڈ ریسرچ سینٹر جانے کا مشورہ دیا ۔پی کے ایل آئی ہسپتال کے لئے رخت سفر باندھ لیا ،گائوں سے آئے ایک دوست نے ہی بتایا کہ اپنے چودھری محمد حسین کی صاحزادی سعدیہ وہاں کوآرڈینیٹر (افسر)ہیں ،وہ آپ کو گائیڈ کرسکیں گی ۔بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں اور اپنے گائوں کی بیٹی سے ملنے کا اشتیاق بھی رہا تاہم ایک دن پی کے ایل آئی ہسپتال میں پہنچ گیا ،پہلے گیٹ پر گارڈ سے پوچھا تو انہوں نے دوسری منزل پر جانے کیلئے لفٹ استعمال کرنے کا مشورہ دیا ،چندلمحوں کے دوران جب میں نے ایک کمرے میں موجود کچھ بچیوں سے مخاطب ہوکر پوچھا کہ بیٹے سعدیہ کوآرڈینیٹر کہاں بیٹھتی ہیں تو درمیان میں نقاب پوش بچی نے بتایا کہ “انکل جی میں ہی سعدیہ ہوں “اسکے ساتھ ہی انہوں نے اپنی ساتھی لڑکیوں سے میرا تعارف کروایا کہ یہ میرے والد کے دوست ہیں ۔
مجھے انکے شناخت کرنے کی صلاحیت نے بہت متاثر کیا ،حالانکہ ان سے بالمشافہ پہلی ملاقات تھی ،بیٹی سعدیہ نے مجھے ہسپتال کے رولزاینڈ ریزولیشن سمجھائے اور پھر ہسپتال کے اندر ہی ایک نئے سفر پر روانہ کردیا ،انکی بتائی ہوئی گائیڈ لائن پر چلتے ہوئے میلوں میں پھیلے ہسپتال کے گیٹ نمبر 9پر رجسٹریشن کیلئے آیا اور پھر اس ابتدائی معرکے کو شام چار بجے تک سرکرلیا ،اگلے مرحلے کیلئے پھر کوآرڈینیٹر سعدیہ کے سامنے تھا ،جنہوں نے اس بار لائنوں سے بچانے کیلئے میرے ساتھ اپنے ماتحت پورٹر کو بھیجا جو میری منزل آسان کرنے میں مددگار ثابت ہوئے ،دن ڈھل جانے پر مجھے ڈاکٹر عادل نے چیک کیا اور کئی طرح کے ٹسٹ تجویز کر دیئے پھر مجھے ایک ہفتے کے دوران دوبارہ چیک اپ کرانے کا کہا ،انکے نسخے کیساتھ پھر سعدیہ کے کمرے میں آیا جو شائد اپنی ڈیوٹی ختم ہو جانے کے باوجود میرا انتظار کررہی تھیں مجھے دیکھے ہی پرجوش آواز میں بولیں !جی انکل چیک ہوگیا “میں نے ڈاکٹر عادل کی طرف سے تجویز کردہ ڈھیروں ٹسٹ کا پرچہ انکے سامنے رکھا ،سعدیہ نےبڑے تحمل سے مجھے تسلی دی اور بیٹھنے کا کہا پھر خود ہی فیصلہ کیا کہ ابھی ٹسٹ کروائیں اور انہوں نے فون کرکے اپنے ایک اور ماتحت کو بلایا اسے سمجھایا جو مجھے لیکر نیچے اوپر گیا اور پھر ٹسٹ کیلئے سیمپل جمع کرانے والے ڈیپارٹمنٹ تک چھوڑ گیا یہاں پر پھر قطار میں لگنا پڑ گیا اسکے جانے کے کچھ ہی دیر بعد میرا نمبر آگیا اور میں سیمپل دے کر ہسپتال سے رخصت ہوکرگھر پہنچ گیا ،دن بھر کی تھکاوٹ کے باوجود مجھے سعدیہ کی توجہ اور تعاون نے ہشاش بشاش رکھا ۔سعدیہ کے حسن سلوک نے مجھے نئی نسل سے متعلق اپنی رائے تبدیل کرنے پر مجبور کردیا ،کیونکہ میں تصویر کا دوسرا رخ “قوم یوتھ ” کی صورت دیکھ چکا ہوں، ایسے نوجوان جنہوں نے بہترین یونیورسٹیوں سے اعلی’ تعلیم حاصل کی وہ اچھے گھروں سے تعلق رکھنے کے باوجود غلط سوسائٹی کا شکار ہوئے اور اخلاق باختہ ہوگئے ،بہت سارے نشے کی لت کا شکار ہوئے ،کراچی کے مصطفی’ عامر اسی” بیماری ” کا شکار ہوئے،لاہور کے معروف ڈاکٹر شاہد صدیق کو قتل کرانے والے انکے ہی بیٹے قیوم کی کہانی بھی غلط سوسائٹی کا شاخسانہ ہے۔پی کے ایل آئی میں کوآرڈینیٹر سعدیہ کی لاچار بیماروں سے ہمدردی اور انکے کام آنے کے جذبے نے مجھے نئی نسل کے بارے میں اپنی رائے تبدیل کرنے پر مجبور کردیا۔اس معاشرے میں ہزاروں مردجہاں اہم عہدوں پر پہنچ کر بزرگوں سے کلام کرنے کا سلیقہ فراموش کرچکے ہیں وہاں ایک لڑکی اپنی بساط سے بڑھ کر دوسروں کے کام کرکے ڈھیروں نیکیاں سمیٹنے کے ساتھ ملک وقوم کا نام روشن کررہی ہے ،جس پر بےساختہ سعدیہ جیسی بیٹیوں کیلئے میرے دل کی گہرائیوں سے دعا نکلتی ہے ،انہی کے جذبے کو دیکھ کر اب ملک کے روشن مستقبل پر یقین کرنے لگا ہوں ۔