ارض فلسطین اور حقائق مہمان کالم (پہلی قسط )
سید تنویر بخاری ایڈووکیٹ (چیئرمین،پاکستان ڈیموکریٹ پارٹی)
دنیا پر اپنی دھاک بٹھانے کا جنوں رکھنے والے آئے فتوحات کیں ،قتل عام کرکے حکومتیں قائم کرلیں اور پھر خاک میں مل گئے مگر انکے اچھے اور برے کام کو یاد رکھا جاتا رہا ہے ۔آج فلسطین کے عوام پر ظلم وتشدد کی انتہا کرنے والے یہودی ایک زمانے میں دربدر ہورہے تھے تو دنیا میں صرف مسلمانوں نے انہیں پناہ دی ۔اس تناظر میں جب رومیوں نے عیسائی مذہب قبول کرنے کے بعد یورپ اور شام میں یہودیوں پر زندگی تنگ کردی تھی۔ انھیں در بدر کیا، ظلم کیے، ذلیل کرکے رکھا اور ان کا قتل کیا۔ جان بچانے اور چین سے جینے کے لیے یہودی ان علاقوں کی طرف رخ کرتے جہاں مسلمانوں کی حکومت ہوتی۔ رومیوں کے عیسائیت قبول کرنے کے بعد بیت المقدس سے یہودیوں کو نکالا گیا اور ان کی عبادت گاہیں تباہ کردی گئیں۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں بیت المقدس کی فتح کے بعد یہودیوں کو شہر میں آنے جانے کی اجازت ملی۔
15 ہجری (637ء) میں بیت المقدس فتح ہونے کے بعد حضرت عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ نے یہودیوں کو بیت المقدس کی زیارت کی اجازت دی، جبکہ اس سے پہلے عیسائیوں نے ان پر پابندی لگا رکھی تھی۔ عیسائیوں نے یہودیوں سے حد درجہ بغض کی وجہ سے اس چٹان، جس کے اوپر “قبۃ الصخرۃ” (Dome of Rock) بنا ہوا ہے، کو کچرے کے ڈھیر سے ڈھک دیا تھا۔ کیونکہ یہودی اس کو مقدس مانتے ہیں۔ اس چٹان کے اوپر سے کچرہ امیر المومنین عمر رضی اللّٰہ عنہ نےاپنے ہاتھ سے صاف کیا۔ مسلمانوں کے نزدیک اس کی اہمیت یہ ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ کی معراج والی رات، اس چٹان پر سے براق اوپر آسمانوں کو اڑا تھا۔پھر جب بھی صلیبی جنگ کے بعد عیسائی بیت المقدس پر قابض ہوئے تو مسلمانوں اور یہودیوں کا قتل عام کیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کے بیت المقدس فتح کرنے کے بعد اور بعد میں طویل عرصہ تک سلطنت عثمانیہ کے زمانے میں یہودی قلیل تعداد میں رہے، لیکن عیسائی ظلم و ستم اور ذلت و خواری والی زندگی سے بہتر حالت میں رہے۔ انیسویں صدی میں یورپ اور روس میں یہودیوں کے خلاف عیسائیوں میں شدید نفرت اور مظالم پھر سے ابھرے۔ ان حالات میں یہودیوں نے عیسائیوں کے ظلم سے تنگ آکر نقل مکانی کی۔ جرمنی، مشرقی یورپ اور روس سے یہودی لاکھوں کی تعداد میں بے گھر ہو گئے۔ ان کی بڑی تعداد امریکا، برطانیہ اور کچھ فلسطین میں آگئے۔اسی دوران میں صیہونیت (Zionism) کی تحریک نے جنم لیا۔ اس تحریک کا مقصد یہودیوں کے لیے اپنا ملک قائم کرنا تھا اور اس کے لیے انھوں نے فلسطین کو چُنا۔ یہ تحریک یورپ، امریکا اور فلسطین میں زور پکڑتی گئی اور یہودیوں نے بڑی تعداد میں فلسطین میں آباد ہونا شروع کر دیا اور یہاں زمینیں خریدنے لگنے۔ یہ سلطنت عثمانیہ کا آخری زمانہ تھا۔پہلی جنگ عظیم (1914ء-1918ء) میں سلطنت عثمانیہ نے جرمنی کا ساتھ دیا تھا اور جب جرمنی ہار گیا تو برطانیہ نے سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا اور مختلف علاقے مختلف یورپی طاقتوں کے قبضے میں آگئے۔ فلسطین پر برطانیہ کا قبضہ ہو گیا۔ 1917ء میں برطانیہ کے وزیر خارجہ نے ایک اعلان کیا، جس کو اعلانِ بالفور (Balfour Declaration) کہا جاتا ہے۔ اس میں کہا گیا کہ فلسطین میں برطانیہ آزاد یہودی ریاست قائم کرنے میں مدد کرے گا۔ برطانیہ نے ان کو وہاں آباد ہونے اور منظم کرنے میں مدد دی۔ جب فلسطین کے عرب مسلمانوں میں یہودیوں کے خلاف شدید رد عمل پیدا ہونے لگے اور دونوں کے درمیان میں شدید جھڑپیں ہونے لگیں تو برطانیہ نے فلسطین سے جانے کا فیصلہ کیا اور اقوام متحدہ سے اس علاقہ کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کا کہا۔اقوام متحدہ نے 1947ء میں فیصلہ دیا کہ فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کر دیا جائے : مغربی علاقہ جہاں یہودیوں کی اکثریت آباد تھی وہاں یہودی اسرائیل کی ریاست قائم کریں اور مشرقی علاقہ میں فلسطینی عرب مسلمانوں کی ریاست قائم ہوجائے۔ جبکہ بیت المقدس اقوام متحدہ کے کنٹرول میں رہے۔ یہودیوں نے اس فارمولے کو قبول کر لیا جبکہ فلسطینی مسلمانوں اور عرب ممالک نے اپنے درمیان میں ایک یہودی ریاست کے قیام کو یکسر مسترد کر دیا۔یہودیوں نے 14 مئی 1948ء کو اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا تو اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان میں جنگیں چھڑ گئیں۔ یہ جنگیں 1967ء تک چلیں۔ جنگ کی شروعات میں اسرائیل نے مغربی بیت المقدس پر قبضہ کر لیا اور فلسطین کے کچھ اور علاقے بھی اپنے قبضے میں لے لیے۔ بقیہ فلسطین کے مختلف علاقوں پر مصر، شام، لبنان اور اردن کا قبضہ ہو گیا۔ بیت المقدس کا مشرقی علاقہ، جس میں حرم شریف اور مسجد اقصیٰ سمیت مقدس مقامات ہیں، اردن کے قبضے میں تھا۔ یہ صورت حال 1967ء تک قائم رہی۔ یہودیوں نے ناجائز قبضہ کر لیا ان لوگوں کا حق مارا جن لوگوں نے ان یہودیوں کو اس وقت پناہ دی جب ہر کوئی ان کا دشمن تھا پھر مسلسل چھوٹی چھوٹی جنگیں ہوتی رہے 2024 میں یہودی کھل کر سامنے آ گئے اور کھلم کھلی دہشت گردی کرنے لگے معصوم بچے معصوم عورتوں کا سر عام قتل کیا گیا تا حال جنگ جاری ہے اور یہودیوں نے غیر قانونی طور پر قبضہ کرنے کی کوشش کی بہت جلد یہودی اپنے انجام کو پہنچیں گے۔صہیونی فوج نے نبیوں کی اس سرزمین کو لہولہان کرکے رکھ دیا جہاں محبت کے پیغام سے امن قائم کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا ۔اس سرزمین پر نفرت اور تعصب پھیلایا گیا ،بچوں ،عورتوں اور بزرگوں کا قتل عام ہونے لگا ،ہر طرف خون کی ہولی کھیلنے والے اسرائیل نے آج فلسطین کے حقیقی مکینوں کو انکی سرزمین سے نکالنے کا اعلان کیا ہے ۔(جاری )