ہمیں بھی چند خانہ آبادیوں میں شرکت کا موقعہ ملا ۔۔ لاکھوں اور کروڑوں کے جہیز مہنگے میک اپ , زیورات اور کھانوں اور ویڈیوز پہ ان ایشوز کو ہائی لائیٹ کرنے کے لئے بہت باتیں ہوچکیں آج ایک اور علت بری طرح سے رواج پا چکی ہے جس پہ ابھی تک کوئی تنقیدی تحریر میری نظر سے نہیں گذری جب کہ اس ایشو پہ گہری تنقید کی ضرورت ہے ۔۔
بات شروع کرتے ہیں شادی کے دعوت ناموں سے ۔۔ اب شادی کارڈز کے اوپر باقاعدہ ڈریس کلر کی تھیم پرنٹ ہوتی ہے تاکہ آپ اپنے لباس کو مدعو کرنے والوں کے مطابق کر لیں اور انکی ناک نہ کٹوا دیں ۔ شادی کارڈز میں چاکلیٹس اور مٹھائیاں بھرکے بھیجنے کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے ۔۔
عجیب ٹرینڈ چل پڑے ہیں دو دہائی قبل شادیوں کا مزاج بالکل الگ ہوتا تھا درمیانہ سے دعوتی کارڈ پہ ہی لوگ لبیک کہتے تھے تقریبات کے دوران کسی نہ کسی طرح تھوڑی بہت شرم و حیا کا اہتمام کر ہی لیا جاتا تھا ۔۔ لیکن یہ گُھٹی مِٹی آزادیاں اور باجے گاجے ہی اصل میں اس آزادی , بے شرمی اور بےحیائی کی بنیاد میں شامل ہیں ۔۔ کبھی کسی نے باپ کو آدھے ادھورے کپڑوں میں بیٹی کے ساتھ پئیر بنا کے بیٹی کو بغل میں لے کے ناچتے دیکھا تھا ؟ ایہے جی یہ دورِ جدید کے لبرل باپ بیٹی کی محبت ہے ۔۔
دلہا لوگ ہل ہل کے چھ کلمے یاد کرتے پائے جاتے کہ اگر نکاح خوان نے کلمے سنے بغیر نکاح پـڑھنے سے انکار کر دیا تو کتنی شرمندگی اٹھانی پڑے گی ۔۔ جبکہ اب کے دلہا دلہن اور بیگانے عبداللہ بھی مہینہ بھر ناچنے کی مخلوط پریکٹس کرتے ہیں تاکہ شادی والے دن مدعوئین کو محظوظ کیا جا سکے لائیو پرفارمنس عمدہ ترین اور پرفیکٹ ہو جو اب سے پہلے کسی نے نہ دی ہو ۔۔ اور شادی کی تقریب زمانے بھر میں ہِٹ کہلائی جائے ۔۔ یہ شادی ہے یا مکمل فلم کا سیٹ ۔۔
اس نئی علت کی بنیاد کھوجنا چاہیں تو کھرے نوے کی دہائی تک جاتے ہیں شادی پہ ویڈیوز بنانے کے رواج نے 90ء کی دہائی میں عروج پکڑا یوں غیر مردوں کی ایک ٹیم کو زنانے میں نقب لگانے کی اجازت مل گئی ۔ کہاں تو تیار دلہن کو اسکے سگے رشتے داروں سے بھی گھونگھٹ میں چھپایا جاتا تھا کہ اس کے سنگھار کی پہلی نظر اسکے منکوح کی پڑے کہاں یہ کہ دلہن کے کلوز اپ اور فریش لک کا کیپچر سب سے پہلے ویڈیو گرافر کے دیدار کا محتاج رہنے لگا سرعام بوس و کنار کی ہدایت کاری کی جاتی ہے کیا شیطان فوٹوگرافر کے دماغ میں نہیں گھستا ہوگا ۔۔۔ ویڈیوز کے ساتھ ساتھ ایسا فوٹو شوٹ لازمی ہوگیا جو بڑی بڑی البمز میں شیشے کی پریاں بند کرنے کا عمل تھا تاکہ ایک عام شادی مکمل فینٹسی بن جائے ۔ اب گذشتہ کچھ برسوں سے شادی شادی نہیں بلکہ ایک مکمل فلم کی شوٹنگ ہی لگتی ہے ۔۔ کروڑوں کے بجٹ میں فلمایا گیا شادی شوٹ ایک کمرے میں گواہان کے سامنے دو لوگوں کے ایجاب و قبول سے بھی انجام دیا جا سکتا ہے ۔۔ ۔۔۔ دلہا دلہن کو شادی کے بھاری کامدار جوڑے میں درختوں اور عمارتوں کے بیچ میں باقاعدہ ناچ اور گا کے لائیو پرفارمنس دینی ہوتی ہے دلہن کا لباس ماڈرن ہوتے ہوتے ایک لہنگا اور ایک چھوٹے بلاؤز تک محدود ہو چکا ہے جو اگلے چند برسوں میں صرف چار انگل کی انگیا جتنا رہ جائے گا جبکہ دلہا کی بھاری اور کامدار شال مزید بھاری اور بھاری ہوتی جارہی ہے تاکہ دلہا میاں کسی ان دیکھی ریاست کے شہزادے نظر آئیں ۔۔ بڑے بڑے فارم ہاؤس ہفتے بھر کے لئے ہائیر کئے جاتے ہیں ۔۔ اور چھوٹی چھوٹی مصنوعی جنتیں قائم کی جاتی ہیں جہاں ویٹر طرح طرح کے گرما گرم تھال سجائے گھومتے ہیں اور آپکے ایک اشارۂ ابرو پہ غلمان آپکے کے آگے نعمتوں کے ڈھیر لگا دیتے ہیں گویا ہم ایک دن کے لئے جنت میں قیام پذیر ہوں ۔۔۔ جہاں مصنوعی جھیلوں میں بطخیں تیرتی ہیں اور گراسی پلاٹس پہ مور ناچتے ہیں ۔۔ درختوں کو یوں سجایا جاتا ہے زمرد , لال و یاقوت اور زرقون جڑے ہوں ۔۔ رقص و سرود کے دریا بہائے جاتے ہیں۔ میرج ہالز , مارکیز , اور ہوٹلز اب فرسودہ اور آؤٹ ڈیٹیڈ رواج ہیں ۔
چھوٹی شادی بھی ہوتو تب بھی ناچنے کا ایک الگ منڈپ ضرور بنایا جاتا ہے تاکہ کپلز باقاعدہ ناچ کے خوشیوں میں شریک ہو سکیں ۔۔۔ جو نہیں ناچے گا وہ دل سے شریک نہیں سمجھا جائے گا۔۔
فوٹو شوٹ کے دوران کیمرہ مین کی ہدایت کاری کے ساتھ سرعام بوس وکنار لازمی شرط ہے جو نئے جوڑے نے آٹھ دس کیمرہ ٹیم کے ساتھ سر انجام دینی ہوتی ہے تبھی یہ ایک خوبصورت اور کامیاب فوٹوشوٹ کہلواتا ہے ۔ فوٹو گرافر کی کامیابی کا یہی راز ہے کہ وہ اپنا فوٹو شوٹ اپنے پبلک بزنس پیج پہ ڈالے اور آنے والے ہزاروں کسٹمرز کو کسی کا نجی شوٹ دکھا کے نیا بزنس لے ۔۔
اس تمام بیانئے میں یہ بات سب سے تکلیف دہ ہے اس قدر پلان بنا کے اور کروڑوں کے بجٹ شادیوں میں خرچ کر کے ہیرو ہیرؤئن جب سیٹ سے اترتے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں نہ آدم نہ آدم زاد نہ حور نہ غلام ۔۔ مہنگے میک اپ کا مرہون منت میک اپ بی دھل چکتا ہے کیمرہ آف ہو چکا ہے مصنوعی روشنیاں گل کی جاچکی ہیں اب اصلی زندگی کے وہی مسائل سر کھولے سامنے کھڑے ہیں دلہا دلہن دونوں کے متعلقین تو بہت بعد میں انوالو ہوتے ہیں زوجین کی انڈرسٹینڈگ ہی جو پہلے ہی ڈولیپ ہو چکی تھی وہ جانے کس دریا میں ڈوب مرتی ہے دونوں کو ایک دوسرے کی ذات میں کیڑے مکوڑے چلتے نظر آنے لگتے ہیں شادی دو چار ماہ سے زیادہ نہیں چلتی ۔۔ پہلے ہی مہینے اختلافات شروع ہو جاتے ہیں ۔ دلہن اپنے گھر چلتی بنتی ہے اور دلہا پھر لنڈورا گھومنے لگتا ہے ۔۔ اب ناکام