“خاندانی راز”

سیدہ پلوشہ ساجد(اسلام آباد )

3

یہ کہانی ایک چھوٹے سے مگر قدیم قصبے کے ایک خاندان کی ہے،قصبہ خوبصورت تھا۔ جہاں ضروریات زندگی کا تمام سامان باآسانی مل جاتا ۔جہاں بنیادی تعلیم اور ہسپتال کی سہولت موجود تھی ۔کمال دین ولد عطا اللہ پشتوں سے اس قصبہ میں رہ رہے تھے ۔ کمال دین کا کوئی بہن بھائی نہ تھا ۔کمال دین اپنی بیوی اور دو بچوں علی اور فاطمہ کے ساتھ اپنی زندگی کے خوشگوار لمحات گزار رہے تھے۔ ان کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ تھا۔مالی وراثت کے علاوہ انہوں نے اپنے اباؤ اجداد سے محبت اور ادب کا بے بہا خزانہ پایا تھا ۔
ان کا گھر ایک پرانی اور نسبتاً بڑی عمارت میں تھا، جس کی دیواروں میں کچھ عجیب و غریب آوازیں سنائی دیتی رہتی تھیں۔ لیکن اس سب کو خاندان والے معمول کی بات سمجھتے ہوئے نظر انداز کر دیتے تھے۔
ایک دن، علی اور فاطمہ کو کھیلنے کے دوران گھر کے پچھلے حصے سے ایک پرانی سی چابی ملی۔ دونوں نے سوچا کہ یہ چابی شاید کسی پرانی دراز یا دروازے کی ہو گی، اس لیے وہ فوراً اسے استعمال کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ یہ چابی ایک کمرے کو لگی جو کبھی نہیں کھلا دیکھا تھا۔ انہوں نے جب چابی کو دروازے میں لگایا، تو دروازہ آہستہ سے کھل گیا۔
یہ دروازہ ایک چھوٹے سے کمرے کی طرف لے جاتا تھا۔کمرہ تاریک تھا، اور اس میں بے شمار پرانی چیزیں رکھی ہوئی تھیں۔ ایک طرف ایک قدیم کتابوں کا ذخیرہ تھا، گو کہ بچوں کو کتابوں سے دلچسپی تھی لہذا وہ کتابوں کی طرف بڑھے انہیں ایک کتاب ملی۔ یہ کتاب کوئی جادو کی لگ رہی تھی۔ اس پر عجیب و غریب علامتیں بنی ہوئی تھیں۔ علی اور فاطمہ نے کتاب کھولی پہلے ہی صفحے پر کسی راز کی طرف اشارہ مل رہا تھا ۔
کتاب میں صاف لکھا تھا: “جو بھی اس کمرے میں قدم رکھے گا،اپنے والدین کا نقصان اٹھائے گا۔کتاب کے بارے میں مزید لکھا تھا ۔کتاب حاصل کرنے والا کتاب میں موجود جادو کہ علم پر عبور پا لے گا لیکن یہ جادو کا علم اسے تباہی کی طرف لے جائے گا۔” دونوں بچے کچھ سمجھ نہیں پائے، مگر وہ خوف زدہ ہو گئے۔ فاطمہ نے علی کو کتاب بند کرنے کو کہا، لیکن علی نے اس کتاب کو مزید پڑھنے کا فیصلہ کیا۔
اگلے دن سے گھر میں کچھ عجیب سا ہونا شروع ہوگیا۔ راتوں کو بے آواز قدموں کی آوازیں آنا شروع ہوئیں۔ علی نے ایک رات دروازے سے باہر دیکھ کر یہ دیکھا کہ اس کے والدین سوئے ہوئے تھے، مگر ان کے بستر کے پاس کوئی سائے کا وجود تھا۔ یہ دیکھ کر علی کے جسم میں سنسناہٹ دوڑ گئی اور وہ فوراً اپنے کمرے میں چلا گیا۔
فاطمہ نے اپنے بھائی کو بتایا کہ وہ ایک عجیب سا خواب دیکھ رہی تھی، جس میں ان کے والدین خوف کے مارے ایک کمرے میں بند ہو گئے تھے۔ فاطمہ کا کہنا تھا کہ یہ خواب حقیقت بننے والا ہے۔ علی اور فاطمہ نے پھر سے وہ کتاب کھولی اور اس کے مزید صفحات پر نظر دوڑائی۔ اس کتاب میں ایک اور گہرا راز چھپاہوا تھا: “جو بھی اس کتاب کو کھولے گا، اسے یہ راز ملے گا کہ اسے اپنے خاندان کو بچانے کے لیے ایک فیصلہ کرنا ہوگا۔”فیصلے کے بارے کچھ نہیں لکھا تھا ۔
دونوں بچے خوف کے مارے لرزتے ہوئے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ وہ جانتے تھے کہ کچھ بہت ہی برا ہونے والا ہے۔ اسی دوران گھر کے اندر ایک اور عجیب سی آواز آئی، جیسے کسی نے دروازہ کھولا ہو۔ علی اور فاطمہ دونوں کے دلوں کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ ان کے والدین ابھی تک سوئے ہوئے تھے، اور ان کے کمرے میں ایک اور سایہ نظر آنے لگا۔
یہ سایہ آہستہ آہستہ ان کے کمرے کی طرف بڑھنے لگا۔ علی نے فوراً دروازہ بند کر لیا، لیکن سایہ مسلسل اندر کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اچانک، ایک زوردار آواز آئی اور دروازہ کھل گیا۔ اس کے بعد، کمرے میں ایک گہرا سناٹا چھا گیا۔
علی اور فاطمہ خوف کے مارے ہانپ رہے تھے، اور انہیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کریں۔ اسی وقت ان کے والدہ کی آواز آئی، جو کہہ رہی تھیں، “یہ سب کچھ سچ ہے، تم دونوں کو یہ کمرہ نہیں کھولنا چاہیے تھا۔
والدہ نے بتایا کہ ان کے خاندان میں ایک پرانا جادو تھا، جسے کئی نسلوں سے چھپایا جا رہا ہے۔ یہ جادو نہ صرف ان کے خاندان بلکہ پورے شہر کے لیے خطرہ ہے۔ جیسے کہ قران پاک میں جادو کرنے سے سختی سے منع کیا گیا ہے ۔اور جو خدا کی حکومت ہولی کرتا ہے نقصان اٹھاتا ہے ۔اب وہ کتاب جس کا تم دونوں بچوں نے پیچھا کیا ہے، وہ جادو کے ایک حصے کا راز رکھتی ہے، اور جو بھی اس کا علم حاصل کرتا ہے، وہ اس جادو کا حصہ بن جاتا ہے۔
علی اور فاطمہ کا دل گھبرا رہا تھا، اور وہ جانتے تھے کہ اب انہیں اس جادو کو روکنے کے لیے کچھ کرنا ہوگا۔ ان کی والدہ نے بتایا کہ صرف ایک طریقہ ہے جس سے یہ سب کچھ روکا جا سکتا ہے۔ وہ یہ کہ اس کتاب کوکسی تعویز میں باندھ کر دفن کر دیا جائے تاکہ اس کے اثرات باہر نہ آسکیں۔
دونوں بچوں نے فوراً فیصلہ کیا کہ وہ اس راز کو ختم کرنے کے لیے اپنی پوری طاقت لگا دیں گے۔ آخرکار، علی اپنے والد کی مدد سے کتاب کو والدہ کے دیے ہوئے تعویذ سے باندھ کر آیک پرانے قبرستان میں دفن کر آیا ۔تاکہ پھر کوئی اور اسے کھولنے کی غلطی نہ کرے ۔
اس کے بعد گھر میں سکون واپس آگیا، وہ جانتے تھے کہ یہ خوفناک جادو ان کے خاندان کی زندگی سے دور جا چکا ہے ۔اب وہ ایک نئے سرے سے زندگی گزارنے کی کوشش کریں گے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.