جشن بہاراں

ڈیرے دار سہیل بشیر منج

2

دنیا میں بے شمار اقوام مذاہب اور رسم و رواج موجود ہیں رسم و رواج اور کلچر ہمیشہ سے ہی مذہب قانون اور پابندیوں کے دائرہ کار سے باہر رہے ہیں ہر خطے کے رسم و رواج اور ثقافت مختلف ہے اور وہاں کے لوگ اسے اپنے اپنے طریقوں سے مناتے ہیں
آ پ ساری دنیا کی ثقافتوں کا مطالعہ کر لیں ہر جگہ کی ثقافت ان کے مذہب پر حاوی نظر آتی ہے اگر برصغیر کی بات کی جائے تو ہم چونکہ ہندوؤں اور سکھوں کے ساتھ رہے ہیں اسی لیے ہماری ثقافت پر ان کا رنگ آج تک نمایاں ہے اس میں کوئی دو رائے موجود نہیں کہ اسلام نے ہماری ثقافت سے بہت سی چیزوں کو نفی کیا ہے لیکن ابھی بھی بہت سے تہوار ایسے موجود ہیں جن کا اسلام سے تو کوئی تعلق نہیں لیکن وہ ہمارے معاشرے سے آج بھی اپنا حصہ وصول کر رہے ہیں
بسنت بھی انہی تہواروں میں سے ایک ہے بے شک جشن بہاراں کا یہ طریقہ کار بھی ہندوؤں سے ہی نکلا ہے لیکن ہم اسے باخوشی قبول کیے ہوئے ہیں مجھے یاد ہے کہ جب ہمارا کالج دور ہوا کرتا تھا تو وہاں دوست احباب باقاعدہ بسنت کی دعوت دیتے تھے بلکہ کئی دفعہ تو ایک ہی رات میں دو دو تین تین دعوتیں بھی موصول ہوتی تھیں خاص طور پر اندرون لاہور میں تو بسنت کو فرض عین سمجھ کر منایا جاتا تھا بسنت کی رات باقاعدہ اپنے گھروں کو برقی قمقموں سے سجایا جاتا تھا ڈھول والوں کو بلایا جاتا باربی کیو، پلاؤ،پٹھورے سری پائے بونگ اور مختلف قسم کے پکوان پکائے جاتے اندرون لاہور میں تو ہوٹلوں اور بلند عمارتوں کی چھتیں بھی کرایہ پر حاصل کی جاتیں سارے پنجاب سے لوگ بسنت منانے لاہور آیا کرتے تھے یوں کہہ لیں کہ بسنت کا تہوار ہر عمر کے لوگوں کے لیے خوشی اور تفریح کا باعث ہوا کرتا تھا پھر پتہ نہیں کہاں سے اس کھیل میں شدت آئی فائرنگ
آ تش بازی اور خونی ڈور کو اس کھیل میں شامل کر لیا گیا پھر ڈوروں کی ایسی دوڑ شروع ہوئی کہ اس نے ہنستے بستے گھرانوں کو ماتم میں بدل دیا لوگوں کی گردنیں کٹنے لگی ایک طرف تو بوکاٹا کے نعروں کی گونج ہوتی تو دوسری طرف کسی معصوم کے گھر میں صف ماتم بچھی ہوتی جب ان حادثات میں بے پناہ اضافہ ہوا تو حکومت نے ان پر پابندی عائد کر دی میں سو فیصد اس پابندی کے حق میں ہوں کیونکہ اگر سارے پنجاب کی وقتی خوشی ایک طرف ہو اور کسی بے گناہ شہری کی ہلاکت ایک طرف تب بھی اس خونی کھیل پر پابندی عائد ہونی چاہیے
اگر اس کے باوجود بھی ہماری نوجوان نسل جشن بہاراں منانا چاہتی ہے تو کیوں نہ اس کا طریقہ کار تبدیل کر دیا جائے اس سال کے جشن بہاراں کو منانے کے لیے اسی طرح پھر سے گروپ تشکیل دیں لیکن اب کی بار یہ گروپ پتنگ بازی نہیں کریں گے بلکہ اپنے اپنے علاقے کو سر سبز و شاداب کرنے کے لیے شجرکاری کریں جتنا پیسہ ڈور اور پتنگ خریدنے پر خرچ کیا جاتا تھا اس سے آدھا حصہ بھی اگر شجرکاری پر خرچ کر دیں اپنے گھر گلی محلے شہر یا دیہات کی تمام خالی جگہوں کا تعین کریں وہاں پر پودے لگائیں کچھ ماہ تک انہیں پانی دیں اور ان کی حفاظت کریں آپ کا یہ جشن بہاراں بہت جلد آپ کے علاقے کو خوبصورت بنا دے گا آپ کو اور آپ کی آنے والی نسلوں کو آلودگی سے پاک اکسیجن مہیا کرنے کا سبب بنے گا اگر آپ کو یہ تجویز پسند نہیں آئی تو پھر اپنے علاقے میں دوڑ کے مقابلوں کا انتظام کر لیں یا پھر کرکٹ ٹورنامنٹ کا انعقاد کروا لیں اگر کرکٹ نہیں پسند نہیں تو کبڈی کا میچ رکھ لیں یا اپنی بیٹھک میں کوئی مشاعرہ رکھ لیں یا پھر اس جشن بہاراں کو اپنے اپنے گھروں کی جنرل صفائی کے ساتھ جوڑ دیں ویسے بھی چند روز میں رمضان کریم شروع ہونے والا ہے اگر آپ اپنے گھروں کی سالانہ صفائی مہم میں حصہ لیتے ہیں تو یہ جشن بہاراں بھی ہو جائے گا اور رمضان کی تیاری بھی اگر آپ کو یہ تجویز بھی پسند نہیں آئی تو دوست احباب کے ساتھ مل کر ایک گروپ بنائیں اور اپنے علاقے اور اپنی جیب سے حسب توفیق فنڈ جمع کریں اور کسی ایسے ہسپتال کو دے دیں جو غریبوں کا مفت علاج کر رہا ہے یا پھر اپنے محلے کے کچھ گھر چن لیں جن کی مالی حالت کمزور ہو اور وہ سفید پوشی کے مد نظر کسی کے سامنے ہاتھ بھی نہ پھیلا رہے ہوں ان کے لیے پیسے جمع کریں اور انہیں رمضان کریم کے لیے راشن لے دیں آپ کا جشن بھی ہو جائے گا اور کسی غریب کی مدد بھی یا پھر ایسا کر لیں اپنے علاقے سے پیسے جمع کریں اور اپنے ہی علاقے کی کسی غریب اور یتیم بچی کا کے نکاح کا انتظام کر دیں بے شک یہ اللہ کریم کے نزدیک بہت بڑا عمل ہوگا اگر آپ کے لیے یہ تجویز بھی قابل قبول نہیں ہے تو پھر میں حکومت پنجاب سے گزارش کروں گا کہ نوجوانوں کو ایک دن بسنت منانے کی مشروط اجازت دے دیں لیکن ان کے لیے علاقے مخصوص کر دیں اگر اس دن ہوا کا رخ مشرق کی طرف رہنے کی توقع ہو تو پھر لاہور کے مشرقی علاقے میں کسی خالی سوسائٹی کا انتخاب کر لیں وہاں جا کر انہیں جشن منانے کی اجازت دے دیں اور اگر ہواؤں کا رخ مغرب کی طرف رہنے کی توقع ہو تو پھر انہیں روڈا سٹی یا رنگ روڈ کے ایس ایل فور منصوبے پر پتنگ بازی کی اجازت دے دیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنی انٹیلیجنس کو اور متحرک کر دیں جو لوگ دھاتی ڈور تیار کرتے پکڑے جائیں انہیں سخت سے سخت سزائیں دی جائیں تاکہ اس شغل میلے کو خونی کھیل بننے سے بچایا جا سکے لیکن جناب وزیراعلی آپ نے جو بھی فیصلہ کرنا ہے برائے کرم نوجوانوں کو اعتماد

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.