میرا کسان پھر رل گیا

62

تحریر:سہیل بشیر منج

کسی گاؤں میں ایک بچہ پیدا ہوا اس کا والد درمیانے درجے کا کسان تھا کاشتکاری ہی اس کا واحد ذریعہ معاش تھا بچہ بڑا ہوتا گیا اس کے باپ نے بڑے لاڈ پیار سے اس کی پرورش کی وہ تعلیم حاصل کرتا گیا میٹرک، ایف اے، بی اے، ایم اے کر لیا اور ایک دن والد سے کہنے لگا کہ اب میں بڑا ہو گیا ہوں میں کوئی کاروبار کرنا چاہتا ہوں تو والد نے جواب دیا بیٹا تم بیس ایکڑ زمین کے مالک ہو تمہیں کام کرنے کی کیا ضرورت ہے
بس یہی بات اس کے ذہن میں بیٹھ گئی اس کی شادی ہو گئی بچے ہو گئے تو اس وقت والد نے کہا بیٹا اب تمہاری ضرورتوں میں اضافہ ہو گیا ہے تمہیں کوئی کام کر لینا چاہیے ویسے تو سب کچھ ہی تمہارا ہے اس دن اس بچے پر جو گزری وہ ناقابل بیان تھی اس کی ڈگریاں کسی کام کی نہیں تھیں اور نہ ہی اس کے پاس کوئی ہنر تھا اس نے اپنی مدد آپ کے تحت کوشش کی وہ مختلف کاروبار کرتا رہا اس میں محنت کرتا لیکن جہاں بات انویسٹمنٹ کی آ تی تو اسے ایک ہی جواب ملتا انویسٹمنٹ کے لیے رقم تو نہیں ہے ویسے سب کچھ تمہارا ہی ہے وہ پھر سے محنت کرنے لگتا لیکن انویسٹمنٹ پر آ کر کاروبار ختم ہو جاتا وقت گزرتا گیا اس کے والد کا انتقال ہو گیا اور پھر سارے گاؤں نے دیکھا کہ اس نے اپنی غربت نکالنے کے لیے زمین کو کوڑیوں کے مول بیچ دیا اس وقت تک اس کے اپنے بچے بڑے ہو چکے تھے اور کوئی ہنر نہ ہونے کی وجہ سے وہ ناکارہ ہو چکا تھا اب اس کے بچے فیکٹریوں میں ملازمتیں کر رہے ہیں بالکل اسی طرح میرے کسانوں کے ساتھ ہوا انہیں ہر دفعہ یقین دلایا جاتا رہا کہ ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے اور سیاستدان اس کے وارث ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا جب مشکل وقت آتا ہے تو ریاست کسانوں کے گھروں سے بھی اجناس اٹھا لیتی ہے اور جس وقت ان کی اپنی غفلت کی وجہ سے ضرورت نہ ہو تو کسانوں کو لاوارث چھوڑ کر منہ موڑ لیتی ہے اس وقت میرے کسانوں کی حالت بھی اس بچے جیسی ہے جس کے پاس کوئی متبادل ہنر موجود نہیں وہ اور اس کی نسلیں تیزی سے برباد ہو رہی ہیں لیکن انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں
چوتھی کلاس سے اب تک مطالعہ پاکستان میں بڑھتے آ رہے تھے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے زراعت پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے حکمرانوں خدا کے لیے ہوش کے ناخن لے لو اب اس ریڑھ کی ہڈی کا ہر مہرہ اپنی جگہ سے ہل چکا ہے میرا کسان لاوارث ہو چکا ہے اور حکومت جو ان کی خیر خواہی کا ڈرامہ کرتی تھی اس کی اصلیت اتنی بھیانک ہے اس کا پتہ اب چل رہا ہے
میں گزشتہ چار سالوں سے زراعت کے شعبہ سے منسلک ہوں میں نے اس دورانیے میں کسان کو کبھی سکھ کا سانس لیتے نہیں دیکھا پہلے سال کی فصل سیلابوں نے تباہ کر دی دوسری فصل بارشوں کی نظر ہو گئی حکومت نے پھر سے کسانوں کو گارنٹی دی کہ کپاس کاشت کریں حکومت نے انہیں 8500 روپے فی من خریدنے کی گارنٹی دی کسان نے پھر سے آڑھتیوں سے قرض اٹھایا کپاس لگائی محنت کی جب فصل آئی تو میرے خیال میں سرمایہ دار اور حکومت ایک پیج پر آ گئے کسان کی کپاس گھروں میں پڑی رہ گئی چار ہزار روپے فی من میں بھی فروخت نہ ہوئی اگلی فصل مکئی کی آ ئی حکومت اور سرمایہ دار پھر ایک پیج پر آ گئے اور میرا کسان پھر برباد ہو گیا
ابھی بھی ایسا ہی ہو رہا ہے سابقہ نگران حکومت کو کس نے اختیار دیا تھا کہ جب ملکی ضرورت سے بھی زیادہ گندم موجود تھی اس کے باوجود ایک بڑی کھیپ امپورٹ کر لے میرے خیال میں نگران حکومت اور سرمایہ دار پھر سے ایک پیج پر آ گئے تھے اس وقت پاسکو کے پاس نئی گندم رکھنے کی گنجائش موجود نہیں ہے پہلے انتظامیہ کسانوں کے پیچھے ہوتی تھی اس وقت کسان انتظامیہ کے پیچھے ہیں لیکن حکومت گندم خریدنے کو تیار نہیں ہے اس دفعہ بیپاری اور شاید حکومت پھر سے ایک پیج پر آ گئے ہیں وہ حکومت کی طرف سے طے کردہ قیمت سے ایک ہزار روپے فی من کم پر کسانوں سے گندم خرید رہے ہیں یہ حالات دیکھ کر تو لگتا ہے کہ اپوزیشن اور حکومت بھی ایک پیج پر ہیں کیونکہ حکومت کی اس مجرمانہ حرکت پر اپوزیشن خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے
جناب وزیراعظم اگر آ پ ہیں تو برائے کرم ان حالات کا سنجیدگی سے نوٹس لے لیں گندم امپورٹ کرنا حکومت کی مجرمانہ غفلت تھی اس کی سزا کسانوں کو نہ دیں آ پ کی نگران حکومت کسانوں کو سستی کھا دیں بیچ ڈیزل اور سپرے دینے میں مکمل ناکام رہی تھی حکومت کی اس مجرمانہ غفلت کو سدھار نے کا ایک ہی راستہ ہے جو
میں آ پ کی خدمت میں عرض کر دیتا ہوں اگر
آ پ یہ کام کر گئے تو ہو سکتا ہے میرے کسان زندگی کی طرف لوٹ آئیں
جناب وزیراعظم ،وزیراعلی آ پ کسانوں سے اسی طرح گندم خریدیں جس طرح پہلے خریدا کرتے تھے اس کے پاس گندم ایکسپورٹ کرنے کا کوئی ذریعہ موجود نہیں ہے اور نہ ہی اجازت
سعودی عرب، دبئی، عمان ، قطر ،بحرین ،کویت ، افغانستان اور بے شمار ایسے ممالک ہیں جن کے پاس اپنی گندم نہیں ہے حکومت اپنی نگرانی میں ان ممالک سے آرڈر پکڑے اور خود ملکی ضرورت سے اضافی گندم کو ایکسپورٹ کر کے منافع بھی کمائے اور کسانوں کو تحفظ بھی فراہم کر دے صرف ایک ہی راستہ ہے جس سے میرے دم توڑتے کسان، مہرے ہلے ریڑھ کی ہڈی اور بدنامی کماتی ہوئی حکومت اپنی اپنی ساخ بچا سکتے ہیں
ابھی سے اگلی فصل کا تعین کر لیں ویسے تو کسان اب حکومت پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں لیکن پھر بھی انہیں اگر سستی کھادیں گرین ڈیزل اور جدید ریسرچ کے حامل بیچ سرکاری قیمت پر میسرآ جائیں تو شاید اگلی فصل تک کسان پھر سے خوشحال ہونا شروع ہو جائے انسانیت کی کسی کتاب میں نہیں لکھا کہ جرم کا ارتکاب حکمران کریں اور اس کی سزا عوام بھگتیں
جناب وزیراعظم میرا کسان سسک سسک کر دم توڑ رہا ہے خدارا اسے بچا لیں میرا کسان بڑا سرمایہ دار نہیں ہے اس کے پاس بڑی بڑی فیکٹریاں یا دوسرے ممالک میں جائیدادیں نہیں ہیں ان کی زندگی اور خوشیوں کا دارومدار زمین پر ہے برائے کرم انہیں مٹی میں مگن رہنے دیں جس دن اس نے کوئی فیصلہ کر لیا تو یقین کریں قوم اناج کے دانے دانے کے لیے ترس جائے گی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.