“زندگی اور وصیت”

46

تحریر: آپا منزہ جاوید( اسلام آباد )

ہم زندگی کے شب روز میں لکھنے کو بہت کچھ لکھتے ہیں بہت سارے کام کاج کرتے ہیں۔ بہت سے اہم فیصلے کرتے ہیں۔ مگر ان کاموں میں ایک اہم نکتہ ہم اگنور کر دیتے ہیں ہمارا ذہن اگر ہمیں اس کی طرف اشارہ کرے بھی تو ہم غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں صحیح پوچھیں تو ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور سوچتے ہیں شاید ایسا کبھی ہونا ہی نہیں کہ ہم ابھی سے دنیا سے کوچ کر جائیں۔ ابھی تو بہت زندگی پڑی ہے وصیت ابھی سے کیوں لکھیں۔؟ ابھی سے جائیداد کس کو کتنی دینی ہے یہ کیوں سوچیں ۔لیکن زندگی کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے آخری سفر کو بھی یاد رکھنا چاہیے۔۔۔۔موت حقیقت ہے اس سے نظریں چرا نہیں سکتے تو پھر ان فیصلوں سے کترانہ کیوں فیملی میں جب بھی بیٹھیں تو اپنی موت کے بارے میں بھی بات کیا کریں۔۔۔
موت کبھی وقت دیتی ہے اور کبھی ایک دم سے آن پہنچتی ہے ۔۔۔کہ وصیت کرنے کا بھی وقت نہیں ملتا اتنا وقت نہیں ملتا کہ بتا سکیں میں نے کس کس سے کیا کتنا لینا ہے کتنا دینا ہے کس کا قرض دار ہوں کون میرا قرض دار ہے میں نے خاموشی سے اچھے برے وقت کے لیے کہاں کتنی رقم رکھی ہوئ ہے۔
موت بہت ظالم چیز ہے یہ کسی کا لحاظ نہیں کرتی ۔تو جب فیملی کے ساتھ بیٹھیں اپنی نجی زندگی کی باتیں بھی کسی نہ کسی فرد سے شئیر کیا کریں۔۔۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کچھ افراد چپکے سے ایک اکاؤنٹ خفیہ کھول لیتے ہیں کمیٹی کی طرح اس میں پیسیے جمع کرتے رہتے ہیں کہ اچھے برے وقت میں کام آئیں گے۔ لیکن اچانک موت آ پہنچتی ہے اور سارے راز سینے میں لیے جہاں فانی سے کوچ کر جاتے ہیں اور بنک میں لاکھوں پڑے فیملی کے کسی فرد کسی کو کوئ فائدہ نہیں دیتے ۔۔ کچھ کاروباری حضرات لکھے اور بتائیے بغیر کسی دوسرے کو رقم ادھار دیے دیتے ہیں اور اچانک وفات کر جاتے ہیں۔۔ ادھار دینے والے واپس ہی نہیں کرتے۔
گھر والے مشکلاقات سے دوچار وقت گزارتے ہیں ۔۔۔ہمارے دین میں کاروبار کرتے وقت لکھنے اور گواہ مقرر کرنے کا کہا گیا ہے کہ جب آپس میں کوئ لین دین کرو تو لکھ لیا کرو یا دو گواہ بنا لیا کریں
یہ ہمارے لیے ہی آسانی کے لیے کہا گیا ہے لیکن ہم دوستی یاری میں یا اعتبار پر ایک دوسرے سے لین دین کر لیتے ہیں اور نہ گواہ کسی کو بناتے ہیں نہ اس سے کچھ لکھواتے ہیں۔۔ تو اچانک وفات کے بعد کچھ خدا سے ڈرتے رقم واپس کر دیتے ہیں اور اکثر خاموشی ہی کو ہی غنیمت جان لیتے ہیں اور رقم واپس نہیں کرتے ۔وہ یہ نہیں سوچتے کہ جن کے گھر کا سربراہ چلا گیا ہے ان کو پیسوں کی اس وقت رقم کی کتنی ضرورت ہے ۔
کوئ بھی آپ کے بعد آپ کے بچوں کا مالی سہارا نہیں بنتا۔ جو والد کی موجودگی میں نزدیکی ہوتے ہیں ۔ والد کی وفات کے ساتھ ہی ان کی دوستی یاری رشتہ داری بھی وفات پا جاتی ہے۔ کوئی بیوی بچوں کا حال احوال پوچھنے والا نہیں ہوتا ۔تو اپنی زندگی میں جو بھی کاروبار کریں یا کسی کو ادھار دیں اپنے گھر والوں کو لازمی بتائیں۔ اگر خفیہ اکونٹ یا خفیہ کسی کو رقم دی ہے تو وصیت کیجیئے کہ اچانک اگر مجھے کچھ ہو جائے تو فلاں ڈائری یا فلاں کاپی کو ضرور پڑھنا۔
کچھ خاندانوں کو دیکھا گیا والد کے وفات پاتے ہی جائیداد کے جھگڑے شروع ہو گے بھائی بہنیں ایک دوسرے کو عدالت کچری میں گھسیٹتے ہیں۔ اورآپس میں لڑائیاں کرتے نظر آتے ہیں۔
کہیں تو بھائی بہنوں کا حق کھا جاتے ہیں اور کہیں بڑی بہنیں چھوٹے بھائیوں کے ساتھ نا انصافی کر لیتی ہیں ۔۔اس انتشار کی وجہ یہی ہوتی ہے۔ زندگی میں والدین جائیداد کا بٹوارہ نہیں کرتے اور نہ ہی کوئ وصیت کرتے ہیں۔ جو خاندان میں دشمنی اور لڑائ کا باعث بنتی ہے ۔اپنی زندگی میں ہی گاہے بگاہے اپنے بیوی بچوں کو بتایئے کہ آپ ان کے لیے کیا سوچتے ہیں۔ان کو کیا دینا چاہتے ہیں۔ اپنی بیوی کے تحفظ کے لیے کچھ نہ کچھ بیوی کے نام جائیداد میں سے اس کے نام لازمی لکھیں یاد رکھیں جب میاں سر پر نہ رہے تو اولاد کے لیے ماں بوجھ بن جاتی ہے۔۔۔
آپ کے بغیر بھی اپنی زندگی کی ساتھی کی زندگی آرام سے گزرے بغیر اولاد کی محتاجی کے عزت سے گزرے تو اس کے نام کوئ دکان مکان یا کرایہ یا کوئ رقم لازمی لکھیں تاکہ آپ کے بعد آپ کی بیوی دربدر دھکے نہ کھائے ۔۔۔
بہت سی عورتیں بیوہ ہونے کے بعد لاوارث ہو جاتی ہیں۔ بیٹے بہویں ان کو گھر سے نکال دیتے ہیں یا فاطمہ الزھراء جیسے اور ولڈ ہاوس میں بچے ان کو چھوڑ آتے ہیں ۔جہاں ان کی آنکھیں بچوں کو دیکھنے کے لیے ترستی رہتی ہیں۔ بھیگی اور انتظار سے بھری آنکھوں کے ساتھ جہان فانی سے کوچ کر جاتی ہیں ۔۔
جناب یہ زندگی ہے اس کا اعتبار مت کیجئیے ۔
جو کرنا ہے جو لکھنا ہے اس کی اہمیت کو سمجھیں جو کام پہلے کرنے والے ہیں ان کو پہلی فرصت میں مکمل کیجیئے ۔۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.