میں بطورِ پاکستانی شہری آصف علی زرداری کو دوسری بار صدرِ مملکت بننے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
آصف علی زرداری نے 2007ء میں قوم کی بیٹی اور اپنی اہلیہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد اکلیدی نوعیت کے فیصلے کیے۔
سال 2007ء میں جب بے نظیر بھٹو وطن واپس آئیں تو انہوں نے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان کی سیاست میں اور پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں آصف علی زرداری کا کوئی کردار نہیں ہو گا۔
جبکہ وہ دبئی میں زیر تعلیم آصف علی زرداری اور بے نظیر کے بچوں کی نگہداشت اور پرورش کریں گے۔
مگر اللہ تعالیٰ کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا۔ 27 دسمبر 2007 کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی الم ناک شہادت نے پاکستان کے سیاسی منظر نامے کو پوری طرح تبدیل کر کے رکھ دیا تھا۔
دبئی میں مقیم آصف علی زرداری کو ہنگامی طور پر پاکستان آنا پڑا۔ اور چونکہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کو سنبھالنے والا اور اُس کی سرپرستی کرنے والا اور کوئی نہ بچا تھا لہٰذا آصف علی زرداری نے اُس وقت پیپلز پارٹی کی ریڑھ کی ہڈی کا کام کیا۔
اُس وقت درد ناک اور جذباتی ماحول کے باوجود آصف علی زرداری نے ’’پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ لگا کر ریاستِ پاکستان کی سلامتی پر کسی صورت بھی آنچ نہ آنے دی اور زرداری کے اس حب الوطنی کے رویے سے پاکستان کے سیاسی اور عسکری حلقے بہت متاثر ہوئے تھے۔
سال 2008ء کے عام انتخابات میں آصف علی زرداری نے خود تو حصہ نہ لیا۔ البتہ پاکستان پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم کی مکمل قیادت خود کی۔ا ُس وقت 2008ء میں پی پی پی کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی نے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی سیاسی وصیت کے مطابق زرداری کو پارٹی کا شریک چیئرمین بنا دیا تھا اور بلاول زرداری کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری نے نہایت سمجھداری سے کام لیتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا نام دے دیا اور پاکستان کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ یہ بازی خون کی بازی ہے یہ بازی تم ہی ہارو گے، ہر گھر سے بھٹو نکلے گا تم کتنے بھٹو مارو گے۔ اُس وقت کے صدرِ مملکت جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف (مرحوم) نے اپنے ذاتی اقتدار کے تحفظ کے لیے محترمہ بے نظیر بھٹو سے باقاعدہ طور پر ڈیل کرتے ہوئے محترمہ کو NRO دیا تھا۔
جس کے بعد بی بی شہید اور آصف علی زرداری سمیت ہزاروں افراد کے خلاف قتل، اقدامِ قتل اور کرپشن کے مقدمات واپس لے لیے گئے۔
جن لوگوں نے جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف (مرحوم) کے مارشل لاء کے دور کو دیکھا ہوا ہے۔ وہ لوگ بخوبی اس بات کو جانتے اور مانتے ہیں کہ پرویز مشرف بہادر، نڈر اور صفات کے مالک تھے۔ 2008ء کے عام انتخابات صدر پرویز مشرف کی زیر نگرانی ہوئے تھے۔
جس کے بعد اُن انتخابات میں پی پی پی اور مسلم لیگ ن نے پاکستان قومی اسمبلی کی اکثریت حاصل کی تھی۔ آصف علی زرداری نے نواز شریف،ا یم۔ کیو۔ ایم، اے۔ این۔ پی اور جماعتِ اسلامی کے ساتھ مل کر وفاقی حکومت بنائی تھی۔ صدر جنرل پرویز مشرف 2008ء کے عام انتخابات کے بعد پارلیمنٹ آف پاکستان کا مکمل اعتماد کھو چکے تھے اور اسی چیز نے مشرف کو صدرِ مملکت کے عہدے سے مستعفیٰ ہونے پر مجبور کیا۔
یاد رہے کہ آصف علی زرداری نے اُس وقت ریاستِ پاکستان کے نئے صدرِ مملکت منتخب ہونے کا اعلان کر کے ملک کے سیاسی حلقوں اور اسٹیبلشمنٹ کو نہ صرف حیران بلکہ پریشان بھی کر دیا تھا۔
پہلی مرتبہ آصف علی زرداری 6 ستمبر 2008ء کو پارلیمنٹ آف پاکستان میں 702 میں سے 481 ووٹ لے کر صدرِ مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان منتخب ہو گئے تھے۔ پاکستان کے دفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق فوج ریاستِ پاکستان میں جمہوریت کو پورا موقع دینا چاہتی ہے۔
آزاد عدلیہ، آزاد میڈیا اور سول سوسائٹی و فوجی اقتدار کو قبول کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے۔ ریاستِ پاکستان میں اس وقت سول اور ملٹری آپسی تعلقات مجموعی طور پر متوازن دکھائی دے رہے ہیں۔
جب تک پاکستان کی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ منظم اور فعال ہو کر جمہوری نظام کو حقیقی معنوں میں عوام الناس کی توقعات کے مطابق مثالی نہیں بناتی اور
ملک میں سے کرپشن کو مکمل طور پر ختم کر کے گڈ گورنرز کو یقینی نہیں بنایا جاتا۔
تب تک افواجِ پاکستان ہی ملک کے لیے بالادست رہیں گی۔ پاکستان کی 76 سالہ تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا تھا کہ آصف علی زرداری کے پہلی بار صدرِ مملکت منتخب ہونے پر کسی جماعت نے ریاستِ پاکستان میں آئین پاکستان کے مطابق پانچ سال کا عرصہ مکمل کیا تھا
اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جمہوریت کو باقاعدہ فروغ دیا گیا۔
اور یہ بھی پہلی بار ہی ہوا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں آصف علی زرداری ایک بار پھر سے
صدرِ مملکت منتخب ہوئے ہیں۔ میرے خیال کے مطابق آصف علی زرداری پر اللہ تعالیٰ کا کوئی خاص نظرِ کرم ہے۔
مگر اب ریاستِ پاکستان اور اس میں رہنے والی غریب و عام عوام کی تمام تر ترجیحات آصف علی زرداری اور موجودہ حکومت پر مرکوز ہیں۔
اور پاکستان میں رہنے والی تقریباً 25 کروڑ عوام دن رات یہ دعا کر رہی ہے کہ شاید ریاستِ پاکستان کو سیاسی تجربہ گاہ سے نکال کر حقیقی معنوں میں اسلامی و فلاحی اور جمہوری مملکت بنایا جائے۔
جوکہ سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ پھر بھی آصف علی زرداری کو دوبارہ صدرِ مملکت بننے پر مبارکباد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ
اللہ تعالیٰ ریاستِ پاکستان اور اس میں رہنے والی غریب، بے بس اور لاچار عوام پر اپنا خاص نظر کرم کرے۔
تحریر: محمد عمیر خالد
13/03/24
https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/03/p3-9-1-scaled.jpg