فلسطین، اسرائیل جنگ اور عالمی برادری

تحریر : فیصل زمان چشتی

3

فلسطین میں اسرائیل کی طرف سے انسانی حقوق کی کھلی اور سنگین خلاف ورزیاں ہورہی ہیں۔ ظلم پر ظلم ہورہا ہے ایسے جبر اور ظلم کئے جارہے ہیں کہ انسانیت بھی شرما رہی ہے بلکہ مررہی ہے۔ فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے بچے ، عورتیں اور بوڑھے بمباری کے بعد اب بھوک سے تڑپ تڑپ کر جان سے جارہے ہیں ایک اندازے کے مطابق اب تک اس جنگ میں ساٹھ ہزار سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں یہ اعداد و شمار دنیا کے امن کے ٹھیکیداروں اور اداروں کے لیے ایک چیلنج ہے کہ وہ کس طرح اسرائیل کو اس دہشت گردی سے روک سکتے ہیں۔ پوری دنیا کے لوگ صدائے احتجاج بلند کررہے ہیں مگر اسرائیل کی دہشتگردی اور درندگی میں ذرہ برابر فرق نہیں آرہا جو انسانیت کی بقا اور دنیا کے امن کے لیے انتہائی تشویش ناک ہے۔
فلسطین اور اسرائیل کے درمیان تنازعہ کئی دہائیوں سے جاری ہے جو مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام کا سب سے بڑا سبب بنا ہوا ہے۔ اس تنازعے میں سب سے تکلیف دہ پہلو اسرائیل کی طرف سے فلسطینی عوام کے انسانی حقوق کی مسلسل اور سنگین خلاف ورزیاں ہیں۔ یہ خلاف ورزیاں نہ صرف بین الاقوامی قوانین اور کنونشنز کی صریح خلاف ورزی ہیں بلکہ یہ انسانیت کے بنیادی اصولوں کے بھی منافی ہیں۔ دنیا کے ہر ملک کی یہ اخلاقی اور انسانی ذمہ داری ہے کہ وہ ان خلاف ورزیوں کو روکے اور فلسطینی عوام کے حقوق کا تحفظ یقینی بنائے۔
اسرائیل نے 1967 کی جنگ کے بعد سے مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں سینکڑوں یہودی بستیاں قائم کیں ۔ یہ بستیاں بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی ہیں، کیونکہ چوتھے جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 49 کے تحت قابض طاقت کو مقبوضہ علاقے میں اپنی آبادی منتقل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ان بستیوں کی توسیع کے لیے فلسطینیوں کی زمینوں پر زبردستی قبضہ کیا جاتا ہے، ان کے گھروں کو مسمار کیا جاتا ہے اور ان کی زراعت کو تباہ کیا جاتا ہے۔ یہ عمل فلسطینیوں کو ان کی آبائی زمینوں سے بے دخل کرنے اور ان کی آبادیاتی ساخت کو تبدیل کرنے کے مترادف ہے اور یہ عمل کئی دہائیوں سے جاری ہے جس کی وجہ سے فلسطین دن بدن سکڑتا گیا اور اسرائیل دن بدن پھیلتا گیا مگر دنیا میں امن کے ضامن ادارے قرار دادوں کے علاوہ کچھ بھی نہ کرسکے یہی وجہ ہے کہ اب اسرائیل فلسطینی عوام کی نسل کشی کررہا ہے اور دنیا ابھی تک اپیلوں پر گذارا کررہی ہے اور قراردادیں منظور کئے جارہی ہے لیکن اسرائیل پر اس کا ذرہ برابر بھی اثر نہیں ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ پوری مسلم امہ خاص طور پر عرب ممالک بھی خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہے ہیں جو خود ان کے مستقبل کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔ ایران اسرائیل جنگ مسلمان ممالک کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے کہ مستقبل قریب میں ان کے کیا عزائم اور کیا اہداف ہیں۔
غزہ پر کارپٹ بمباری اور اسے کھنڈرات میں تبدیل کرنے کے بعد اسرائیل نے اس کی سخت زمینی، سمندری اور فضائی ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ اس محاصرے نے غزہ کی 2 ملین آبادی کو ایک کھلی جیل میں تبدیل کر دیا ہے۔ اشیائے خوردونوش، ادویات، تعمیراتی سامان اور دیگر ضروری اشیاء کی آمدورفت پر سخت پابندیاں ہیں، جس کی وجہ سے غزہ میں انسانی بحران پیدا ہو چکا ہے۔ صحت کا نظام تباہ حال ہے، اور صاف پانی کی کمی ہے۔ بچے عورتیں اور بوڑھے بھوکے مررہے ہیں پناہ گزین کیمپوں پر بمباری کی جاتی ہے ہسپتالوں کو جیٹ طیاروں سے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ لوگ تڑپ تڑپ کر مررہے ہیں۔ فلسطینی عوام ان کی گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور جہازوں کی بمباری کا جواب صرف پتھروں کی صورت میں دیتی ہے جو ان کو میسر ہیں اس سے ان کی مظلومیت اور بے بسی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ پوری دنیا اس ظلم و بربریت اور درندگی پر صرف مذمت کرنے پر اکتفا کررہی ہے دنیا کی کوئی بھی طاقت سامنے آکر مظلوموں کا ساتھ نہیں دے رہی ہے یہ قیامت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے۔ اسرائیل اور اس کے ہمنوا خدا کے قہر کو آواز دے رہے ہیں کیونکہ ظلم جب حد سے بڑھتا ہے اور کوئی دنیاوی طاقت اس کو نہیں روکتی تو تاریخ گواہ ہے قدرت کا نظام حرکت میں آتا جو سب کو اپنے شکنجے میں لے لیتا ہے اس وقت سے ڈریں اور ابھی کچھ کرلیں۔ اس کے علاوہ، مغربی کنارے میں بھی اسرائیلی فوجی چوکیاں (Checkpoints) اور رکاوٹیں (Barriers) فلسطینیوں کی آزادانہ نقل و حرکت میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ یہ پابندیاں فلسطینیوں کی تعلیم، صحت اور روزگار تک رسائی کو محدود کرتی ہیں۔
اسرائیلی افواج کی طرف سے فلسطینی مظاہرین اور شہریوں کے خلاف طاقت کا بے جا استعمال ایک عام بات ہے۔ غزہ پر ہونے والے متعدد فوجی حملوں میں بھی ہزاروں بے گناہ شہری، جن میں خواتین اور بچے شامل ہیں، ہلاک ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق، اسرائیل اکثر بین الاقوامی انسانی قانون کے بنیادی اصولوں، جیسے کہ تناسب اور امتیاز (Proportionality and Distinction) کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ قید اور انتظامی حراست میں
اسرائیل ہزاروں فلسطینیوں کو قید کر چکا ہے، جن میں بچے بھی شامل ہیں۔ کئی فلسطینیوں کو بغیر کسی الزام یا مقدمے کے “انتظامی حراست” (Administrative Detention) کے تحت طویل عرصے تک قید رکھا جاتا ہے۔ یہ عمل بین الاقوامی قانون کے تحت جائز نہیں ہے اور یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ قیدیوں کو اکثر تشدد اور غیر انسانی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
اسرائیلی حکام فلسطینیوں کے گھروں کو اکثر “غیر قانونی تعمیرات” کے بہانے مسمار کر دیتے ہیں، حالانکہ فلسطینیوں کو تعمیراتی اجازت نامے حاصل کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ کارروائیاں فلسطینیوں کو بے گھر کرتی ہیں اور ان کی زندگیوں کو مزید مشکل بناتی ہیں۔ مشرقی یروشلم میں بھی فلسطینیوں کو زبردستی ان کے گھروں سے بے دخل کیا جا رہا ہے تاکہ وہاں یہودی آبادی کو بسایا جا سکے۔
فلسطینی عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے اور ایک

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.