کربلا: حق و باطل کی ابدی جنگ کا استعارہ 

تحریر: رخسانہ سحر

4
کربلا صرف تاریخ کا ایک واقعہ نہیں،
یہ ہر اُس لمحے کی ترجمانی ہے جہاں انسانیت اور ظلم آمنے سامنے آتے ہیں۔
یہ وہ مقام ہے جہاں وقت رک گیا، اور کردار بولنے لگے۔
حضرت امام حسینؓ نے مدینہ سے کوفہ، اور پھر کربلا تک کا جو سفر کیا، وہ دراصل ایک انقلابی پیغام کا سفر تھا۔
یہ سفر تخت کی طرف نہیں تھا، بلکہ طاغوت کے انکار کی طرف تھا۔
یہ جنگ اقتدار کے لیے نہیں، اقدار کے لیے تھی۔
یہ جدوجہد دین کی سربلندی، اور باطل کے نظام سے انکار کی علامت تھی۔
یزید کی حکومت صرف سیاسی نہیں تھی،
یہ وہ نظام تھا جو دین کے اصولوں کو پامال کر کے، ظلم کو طاقت کا لباس پہنا رہا تھا۔
یزید کی بیعت، دراصل اُس سوچ کی تائید تھی جو حرام کو حلال، ظلم کو عدل، اور طاقت کو حق بنانے پر تُلی ہوئی تھی۔
امام حسینؓ نے فرمایا:
⁠”مجھ جیسا، اُس جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا!”
یہ جملہ تاریخ کا وہ نکتہ ہے جو حق و باطل کے درمیان لکیر کھینچتا ہے۔
یہ صرف انکار نہیں، پوری امتِ مسلمہ کے لیے اصولی رہنمائی ہے
کہ جب دین اور ضمیر کا سودا ہو رہا ہو،
تو خاموشی بھی جرم بن جاتی ہے۔
کربلا کا میدان: وفا، صبر، اور قربان
جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.