وہ حجاب… جو کامیابی سے ہم کنار ہوا

 تحریر: شبانہ ایاز shabanaayazpak@gmail.com 

7

کہتے ہیں خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں، لیکن کبھی کبھی معاشرے اور ریاستیں ان خوابوں پر پہرہ لگا دیتی ہیں۔ ایسا ہی کچھ ترکیہ کی ایک بیٹی، ایجان اوزونے کے ساتھ ہوا — جس نے ایک عام سی خواہش دل میں رکھی تھی: تعلیم حاصل کرنا اور استاد بننا۔ مگر یہ خواہش اس وقت “جرم” بن گئی جب اس نے اپنی شناخت کا سب سے مقدس اظہار — حجاب — اختیار کیا۔
ترکیہ کے جنوب مشرقی شہر مارڈین کی پہاڑی گلیوں میں پلنے والی یہ خاموش سی لڑکی، ایجان، بچپن سے ہی تعلیم کی شوقین تھی۔ لیکن 1997 کی فوجی مداخلت نے ترکیہ میں صرف حکومت ہی نہیں بدلی، بلکہ سیکولر ازم کے نام پر ایک نئی نوعیت کا جبر نافذ کیا گیا۔
ہزاروں ترک لڑکیوں کی طرح ایجان پر بھی اسکول اور یونیورسٹی کے دروازے بند کر دیے گئے۔ صرف اس لیے کہ وہ حجاب پہنتی تھیں — ایک ایسا لباس جو اُن کے عقیدے اور وقار کی علامت تھا۔
ایجان کہتی ہیں:
⁠”مجھے یہ سزا صرف اس لیے ملی کہ میں نے اپنی شناخت چھپانے کے بجائے اسے فخر سے اپنایا۔”
لیکن خواب دفن نہیں کیے جا سکتے۔
ایجان نے زندگی سے سمجھوتا کیا، شادی کی، بچوں کی ماں بنی، قالین بُننے کا ہنر سیکھا۔
لیکن دل کے کسی کونے میں ایک پیاس باقی رہی — علم کی پیاس، خود کو مکمل کرنے کی تڑپ۔
پھر 2023 میں، جب اُس کی بیٹی سیول یونیورسٹی میں داخلہ لے رہی تھی، تو ایک ایسا قانون نافذ ہوا جس کے تحت 34 سال سے زائد عمر کی خواتین مخصوص کوٹے کے ذریعے دوبارہ تعلیم حاصل کر سکتی تھیں۔
ایجان نے یہ موقع ضائع نہیں ہونے دیا۔ برسوں پہلے جو دروازے بند ہوئے تھے، وہ اب خود کھلنے لگے۔
اب وہ ماں نہیں، ساتھی طالبہ تھی۔
ماں اور بیٹی ایک ہی یونیورسٹی، ایک ہی کلاس، ایک ہی کینٹین میں دکھائی دینے لگیں۔
سیول کے لیے یہ حیرت انگیز تجربہ تھا: “میں نے اپنی ماں کو ایک نئی روشنی میں دیکھا — وہ نہ صرف والدہ تھیں، بلکہ میری ہم جماعت بھی، میری دوست بھی، اور میری تحریک بھی۔”
دو سال کی مسلسل محنت کے بعد وہ دن بھی آیا جس کا ایجان نے برسوں انتظار کیا تھا — گریجویشن کا دن۔
ایک ہی رنگ کے یونیفارم، ایک جیسے حجاب، اور چہروں پر کامیابی کی چمک لیے ماں اور بیٹی جب شانہ بشانہ کھڑی ہوئیں تو وہ صرف ایک یادگار تصویر نہ تھی —
بلکہ وہ ایک پوری قوم کی تاریخی جدوجہد، اور خواتین کی روحانی فتح کا استعارہ بن گئی۔
جب ان دونوں نے آسمان کی طرف اپنی ٹوپیاں اچھالیں تو وہ ٹوپیاں صرف دو ڈگریوں کا اعلان نہ تھیں —
وہ ان لاکھوں خوابوں کی نمائندہ تھیں جنہیں کسی زمانے میں حجاب کی آڑ میں روند دیا گیا تھا۔
سیول کہتی ہے:
⁠”یہ صرف میری نہیں، ہماری گریجویشن تھی۔
ایک ایسا خواب جو مرنے سے انکار کر چکا تھا۔”
یہ کہانی صرف ایجان کی نہیں،
بلکہ اُن ہزاروں، بلکہ لاکھوں باحجاب ترک خواتین کی ہے جنہوں نے جبر، پابندی، تحقیر اور ریاستی رویوں کے باوجود نہ اپنی شناخت چھوڑی، نہ اپنا خواب دفن کیا۔
انہوں نے ثابت کیا کہ علم صرف ظاہری لباس نہیں دیکھتا، بلکہ باطن کی روشنی کا نام ہے۔
آج جب ترکیہ کی جامعات، عدالتیں، اسپتال، پارلیمنٹ اور میڈیا ان باوقار باحجاب خواتین کی موجودگی سے روشن ہیں،
تو اس کے پیچھے ان ہی ماؤں کی قربانیوں، صبر اور پوشیدہ انقلاب کی کہانی پوشیدہ ہے۔
ترک صدر رجب طیب ایردوان کے دور میں جب حجاب پر سے پابندیاں ختم ہوئیں،
تو یہ صرف ایک حکومتی فیصلہ نہیں تھا — یہ اسلامی شناخت کی اجتماعی بحالی اور تہذیبی اعتماد کی جیت تھی۔
ایجان کہتی ہیں:
⁠”تعلیم کا کوئی وقت مقرر نہیں ہوتا۔
سیکھنا زندگی بھر کا سفر ہے۔
اور کبھی کبھار سب سے حسین منزل وہ ہوتی ہے،
جس کا ہمیں برسوں سے انتظار ہو۔”
سیول کی آخری بات آج کی نسل کے لیے سبق ہے:
⁠”جب میں اپنے بچوں کو اُس دن کے بارے میں بتاؤں گی،
تو یہ بھی بتاؤں گی کہ اُس کامیابی کے نیچے ایک حجاب تھا —
اور اس کے اندر ایک کہانی تھی۔
اور وہ کہانی… ہماری تھی!”
ہم اُن تمام باحجاب خواتین کو سلام پیش کرتے ہیں
جو خاموشی سے تاریخ کا رخ بدل دیتی ہیں،
جن کے چہرے پردے میں ہوتے ہیں،
لیکن ان کی نیت، حوصلہ اور خواب پوری دنیا کو روشن کر دیتے ہیں۔
جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.