مخصوص نشستوں کے مشہور کیس کا تاریخی فیصلہ

آج کا اداریہ

4

سپریم کورٹ سے سنائے گئے مخصوص نشستوں کے مشہور کیس کے فیصلے سے سیاسی لحاظ سے ڈرامائی تبدیلی رونما ہوئی ہے   پی ٹی آئی کو دی گئی مخصوص نشستیں منسوخ کرنے کا فیصلہ سپریم کورٹ نے 13 رکنی بنچ نے کیا، فیصلہ کے حق میں سات اور مخالفت میں  چھ ججوں نے رائے  دی –
مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کے فیصلے کے خلاف  نظرثانی کی درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔  نظرثانی درخواستوں پر فیصلہ سنانے کے لئے جج معمول کا کام تمام ہونے کے بعد دوسری مرتبہ عدالت میں آئے۔ عدالت میں رپورٹروں کی بھی بڑی تعداد موجود رہی جنہوں نےاس کیس کے فیصلہ کی لائیو رپورٹنگ کی
جسٹس امین الدین،جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس مسرت ہلالی نے اکثریتی فیصلہ دیا، جبکہ جسٹس شاہد بلال،جسٹس عامر فاروق اور جسٹس ہاشم کاکڑ بھی اکثریتی ججز میں شامل ہیں۔اس کے علاوہ جسٹس علی باقر نجفی بھی اکثریتی فیصلہ دینے والے ججز میں شامل ہیں۔
چھ کے مقابلے میں سات ججز کی اکثریت نے نظرثانی کی درخواستیں منظور کیں۔
اس فیصلہ کے نتیجہ میں پی ٹی آئی قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں سے محروم ہو گئی ہے۔ اب یہ مخصوص نشستیں پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں انتخابی نشان کے  ساتھ الیکشن لڑ کر پہنچنے والی تمام سیاسی پارٹیوں میں ان کی الیکشن میں جیتی ہوئی نشستوں کے تناسب سے تقسیم کر دی جائیں گی۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے فیصلے کی روشنی میں حکمران اتحاد کی قومی اسمبلی میں نشستوں میں قومی اسمبلی، خیبر پختونخوا اور پنجاب میں 77 نشستیں بحال ہوئی ہیں۔ جس سے قومی اسمبلی میں حکمران اتحاد کو دوتہائی اکثریت مل گئی ہے ۔اور دیگر پارلیمانی جماعتوں کی عددی اکثریت بڑھ گئی۔
فیصلے سے قبل قومی اسمبلی میں حکمراں اتحاد میں شامل جماعتوں کے ارکان کی مجموعی تعداد 218تھی، اب یہ ارکان دوبارہ 237 ہو گئے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے 110، پیپلز پارٹی کے 70، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے 22 اور مسلم لیگ (ق) کے پانچ ارکان ہیں۔
پارٹی پوزیشن کے مطابق قومی اسمبلی میں اپوزیشن میں شامل جماعتوں کے مجموعی ارکان کی تعداد 100 بتائی گئی ہے جس میں سنی اتحاد کونسل کے 80، تحریکِ انصاف کی حمایت سے کامیاب ہونے والے آٹھ آزاد ارکان اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے آٹھ ارکان بھی شامل ہیں۔
قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن کی 15 نشستیں بحال ہو رہی ہیں، پیپلز پارٹی کی4 نشستین بحال ہو رہی ہیں اور جے یو آئی ف  کی 3 نشستیں  بحال ہو رہی ہی۔ الیکشن کمیشن  15 روز میں ان ارکان کی رکنیت بحال کرنے ککے سپریم کورٹ کے حکم پر عمل درآمد کرے گا۔
سپریم کورٹ کے گیم چینجر فیصلے کے بعد قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے ارکان کی تعداد 125 ہو گئی، پیپلز پارٹی کے 74ارکان ہوں گے۔ قومی اسمبلی میں اب اتحادی جماعتوں کو دو تہائی اکثریت حاصل ہو گئی ہے۔336کے ایوان میں دو تہائی اکثریت کے لیے 224اراکین کی ضرورت ہے۔حکمران اتحاد کو 237اراکین کی حمایت حاصل ہو گئی ہے
قومی اسمبلی میں جے یو آئی کے ارکان کی تعداد11 ہو گئی ہے۔
پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ ن کی اکثیر مزید مضبوط ہو گئی ہے۔ پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ ن کو 23 مخصوص نشستوں پر اپنے منتخب ارکان کو اسمبلی میں واپس لانے کا موقع ملا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی بھی نشستیں بحال ہوئی ہیں۔
خیبرپختونخوا میں موجودہ حکومتی سیٹ اپ کی تبدیلی میں صوبائی اسمبلی میں موجود 35 آزاد ارکان فیصلہ کن شکل اختیار کرگئے۔
مذکورہ ارکان کے پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے رہنے کی صورت میں علی امین حکومت کو بدستور 145رکنی ایوان میں 93ارکان کی حمایت حاصل رہے گی تاہم ان کی جانب سے حکومت کا ساتھ چھوڑنے سے حکومتی ارکان کی تعدادکم ہوکر 58پر آجائے گی جس سے حکومت ایوان میں اکثریت کھوبیٹھے گی۔
خیبرپختونخوا اسمبلی میں اس وقت علی امین گنڈاپور کی حکومت کو 93 ارکان کی حمایت حاصل ہے جن میں سے 58 ارکان کا تعلق پی ٹی آئی جبکہ پی ٹی آئی پی کے 35 ارکان آزاد ارکان کی حیثیت سے ایوان میں موجود ہیں۔
دوسری جانب اپوزیشن کی پانچ جماعتوں کے 27ارکان ایوان میں موجود ہیں جن میں مسلم لیگ(ن) اور جمعیت علما اسلام کے 9،9 ارکان، پیپلز پارٹی کے 5 ارکان جبکہ اے این پی اور پی ٹی آئی پارلیمنٹرین کے دو دو ارکان ایوان کا حصہ ہیں۔
ایوان کی اس وقت 25 نشستیں خالی ہیں جن میں 21 خواتین اور 4 اقلیتی نشستیں شامل ہیں ، مذکورہ نشستیں اپوزیشن کو ملنے پر اب ان کے ارکان کی تعداد بڑھ کر 52 ہوجائے گی تاہم ایوان میں سادہ اکثریت کے لیے 73ارکان کی ضرورت ہے جس کے باعث ایوان میں موجود آزاد ارکان فیصلہ کن کردار ادا کریں گے۔
اگر ان ارکان نے علی امین گنڈاپور کی حمایت جاری رکھی تو ان کی حکومت بدستور موجود رہے گی تاہم اگر مذکورہ ارکان اپوزیشن سے آن ملے تو اس صورت میں اپوزیشن ارکان کی تعداد 87 ہوجائے گی اور وہ سہولت کے ساتھ حکومت بنالیں گے۔
مذکورہ آزاد ارکان پر فلور کراسنگ کی صورت میں 63 (اے) کا اطلاق بھی نہیں ہوگا کیونکہ وہ کسی پارٹی کا حصہ نہیں۔ فیصلے پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے اور سیاسی عینک سے دیکھنے کی بجائے آئینی و قانونی پہلووں سے دیکھا جائے تو درست فیصلہ ہے کہ فروری 2023 کے جنرل الیکشنز میں جن جماعتوں نے حصہ لیا تھا انہیں جیتی ہوئی سیٹوں کے تناسب سے نمائندگی مل جائیگی جبکہ جو جماعتیں کسی انتخابی نشان کے بغیر لڑ کر آگے آئیں آئین کے مطابق وہ ان مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.