امجد صدیقی ایک منفرد پاکستا نی شخصیت

منشاقاضی  حسبِ منشا 

2
 امجد صدیقی ایک عجوبہ ء روزگار پاکستانی ہیں جن کا شمار سعودی عرب میں بسنے والے اصول پسند ،ایماندا ر اور کامیاب بزنس شخصیات میں ہوتا ہے ان کی زندگی تجربات ،چیلنج جدوجہد، انتہائی محنت، کھٹن اور ایڈونچر سے بھرپور ہے۔شائدہی کوئی دوسری ایسی پاکستانی شخصیت ہوگی جس نے شدید معذوری کے باوجودزندگی کے دنیا بھر کے ہر میدان میں کے جھندے نہ گاڑے ہوں۔ وہ اکتوبر 1979 کو وہ بنک میں جاب کے سلسلہ میں سعودی عرب آ گے ایک ر وذ نومبر1980 میں افس سے واپس سے گھر واپس ا رہے تھے کہ ایک گاڑی نے ٹکر ماری اور اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی اس کے بعدبدقسمتی ایک بار پھر زندگی کا حصہ بن گئی 25 دسمبر1981 میں انکی کار کو حادثہ پیش آیا جس سے ان کی ریڑھ کی ہڈی پر شدید چوٹ لگی جس سے ان کے جسم کا نوے فیصد حصہ مکمل معذور ہوگیا اور ویل چیئر ان کا مستقل سہارہ بن گئی۔ اس شدید ترین معذوری کے باوجود امجد صدیقی نے ہمت نہیں ہاری سخت ترین مشکلات میں زبردست محنت، چیلیجوں کے ساتھ جوان مردی، ثابت قدمی، خوداری سے اس معذوری کا مقابلہ کیا انہوں نے کبھی معذوری کو مجبوری نہیں بنایا۔ وہ تقریباً اٹھارہ (18)ماہ تک مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج راہے۔ دوران علاج ان کے درجنوں آ پریشن ہوئے ۔ دن رات سخت امتحانات سے گزرتے۔ بار ہارزندگی اور موت سے آمنا سامنا ہوا مگر ﷲ تعالی نے ان کو زندہ رکھ کر دوسروں کیلئے مشعل راہ بنانا تھا۔ سووہ الحمداﷲ اآج بھی زندہ ہیں۔امجد صدیقی بتاتے ہیں علاج کے دوران ایک ڈاکٹر نے ان سے کہا:اﷲ کرے آپ کو موت آجائے کیونکہ آپ جیسے مریض کی زندگی موت سے بد تر ہوتی ہے۔وہ ایل خانہ دوستوں اور معاشرے پر بوجھ ہوتا ہے اگر وہ زندگی سے آزاد ہو جائے تو اس کے ایل خانہ دوستوں اور معاشرے کے لئے بہتر ہوتا ہے۔ یہ حقیقت ہے دکھ ضرور ہوتا ہے مگر کچھ عرصے کے بعد صبر آجاتا ہے اور زندگی نارمل ہوجاتی ہے۔ مگر پیرا پلییجک یا کوارٹرپلییجک (Paraplegic/ Quarterplegic) مریض تمہاری طرح مرتا اور جیتا ہے۔ اس کا جسم بے حس اور بے جان ہوتا ہے وہ بالکل حرکت نہیں کرسکتا۔ پیشاب پاخانے پر اس کا کنٹرول نہیں ہوتا ومرضی کے مطابق کھاپی نہیں سکتا اور کوارٹرپلییجک کی حالت تو یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے بازو اپنے ہاتھ کو بھی حرکت نہیں دے سکتا نہ ہی خودوہ کھاپی سکتا ہے۔ جسم متحرک نہ ہونے سی جگہ جگہ بید سور ہوجاتے ہیں۔ جو کہ ایک نا سور ہیں۔ وہ ایک زندہ لاش کی ماند ہوتا ہے۔نہ جیتا ہے۔نہ مرتا ہے۔
مجھے اس ڈاکٹر پر غصہ آیا کہ اس نے ایسا کیوں کہا دل چا ہتا تھا اس سے جھگڑ پڑوں۔ اس کا منہ نوچ لوں۔ مگر سچ تو یہ ہے تینتیس (44)سال کے دوران اکثر اس کی بات سچی لگتی تھی۔ پھر بھی میں نے ہمت نہیں ہاری۔ میرا مقصد اس ڈاکٹر کی سوچ کی نفی تھا۔ یہ حقیقیت ہے کہ میں نے انتہائی تکلیف دہ آگ میں زندہ جل جل کر وقت گزارہ، مگرایک چٹان کی ماند اپنے مشن پر ڈٹارہا ۔امجد صدیقی نے بتایا کہ جب ان کے اپنوں کو یقین ہوگیا کہ یہ ہمیشہ کیلئے معزور ہوگیا ہے تو سب دوست ، رشتہ دار، انتہائی قریبی خون کے رشتے جن کو پتہ چلا وہ دور ہوتے چلے گئے۔ یہ تلخ حقیقت ہے آج کا انسان چڑ ھتے سورگ کا پجاری ہے۔
امجد صدیقی کہتے ہیں کہ انسان میں اگر ہمت ہو۔ خلوص ہو، ثابت قدمی اور خوداری ہوتو ہر مشکل آسان ہوجاتی ہے۔ میں جہاں چاوہاں راہ کے اصول پر عمل کرتے ہو ئے سکریش(Scrach) سے دوبارہ زندگی کا آغاز کیا۔ ہمت ، جدودجہد، ثابت قدمی اورخوداری سے کا میا بیو ں کا آغاز کیا اور ثابت کیا کہ زندگی میں کچھ نا مکمن نہیں۔ سعودی عرب میں آج ان کاشمار کامیاب ترین قابل فخر بزنس مینوں میں ہوتا ہے وہ پانچ کمپنیوں کے C.E.O ہیں۔ شدید معزوری میں مبتلا ہونے کے باوجود امجد صدیقی مشرق وسطہ اور ایشیامیں وہ پہلے پاکستانی ہیں جنہوں نے 1986-1985 میں تن تنہاویل چیئر پر52 ممالک کادورہ کیا تھا۔ جس کا مقصد معزور افراد کی زندگی دنیا بھر میں اس بیماری پر ہونے والے ریسرچ کے بارے میں معلومات حا صل کرنا تھا۔ انہوں نے اپنے دورے کے دنیا بھر میں بسنے والے معزور افراد کی زندگی دنیا بھر میں اس بیماری پر ہونے والے ریسرچ کے بار ے میں معاشرے کی طرف سے کے گئے اقدامات کا جائزہ لیا۔مختلف ریسرچ سنٹروں Rehabilitation, (Research Center) سنٹروں کا دورہ کیا اور معلومات جمعہ کیں۔ ان کے اس دورے کو عالمی سطح پر بہت زیادہ پزیرائی ملی۔ ہیرواف دیایئر کیاعزازات سے نوازہ گیا۔ دنیا بہر کے میڈیا نے ان کی زندگی شخصیت اور مشن کو ہر طرح سے بہیت زیادہ اجاگرکیا اور اے مین ان ہز مشن ( A MAN ON HIS MISSION) کا نام دیا گیا۔
اپنے عالمی دوران 1986 میں انہوں نے نیو یارک میں پاکستان ڈے پر عظیم الشان ریلی کی قیادت کی۔ امجد صدیقی نے اپنے ورلڈ ٹور کے دوران ان ریسرچ سنٹروں کا دورہ کیا جو کہParaplegic کی زندگی پرریسرچ کررہی تھے۔ اس مقصد کے لئے امجد صدیقی نے دنیا بھر کے تمام ریسرچ سنٹروں کو اپنی زندگی جسم وقف کر ہیں وہ جب چاہیں اس کو اپنے تجربات کیلئے استعمال کرسکتے ہیں۔ دنیا بھر کے میڈیا نے ان سے اقدام کے زبردست تشخیر کی۔ ان کے دورہ کے سینکڑوں انٹرویو نشر کے گئے۔ اسی دوران انہیں ون ان ون ملین کا اعزاز دیا گیا ۔
مڈل ایسٹ اور ایشیاء میں امجد صدیقی پہلے پاکستانی ہیں جنہوں نے1987 میں الیکٹریکل فنکشنل سمیولیٹر Electrical Functional Simulator کیلئے اپنے قدموں پر کھڑے ہوکر ۹۱ میڑ تک کا فاصلہ طے کیا یہ پہلہ کامیاب تجربہ تھا جو کہ یوگو سلاویہ میں کیا گیا۔
1991میں تجرباتی طور پر ایک نئی ایجاد کے ذریعے امجد صدیقی کو پیراداکرParawalkerکے ذریعے چلانے کا کامیا ب تجربہ کیا گیا۔ اس میں خاطر خواہ کا میا بی ہوئی ۔ پیراوا کر سیچلنے سے ان کی پریکٹیکل Practical زندگی بہت سلو slow ہوگئی تھی۔مگر انہیں سخت کام کرنے کی عادت تھی اس لیے انہوں نے دوبارہ ویل چیئر
جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.