وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے بجلی قیمتوں میں ریلیف اعلان کر دیا گیا۔ مختلف کیٹگریز کے صارفین کیلئے موجودہ ریٹس اور نئی قیمتوں کا تعین کیا گیا ہے۔جس سے چھوٹے صارف کو ریلیف ملے گا۔پیکج تیار کرتے وقت ایک سے تین سو یونٹ کے صارفین سمیت زرعی و صنعتی شعبےکا خیال رکھا گیا ہے۔
یادرہے گزشتہ برس کے ٹیرف کے مطابق بجلی کے بِل میں 200 یونٹ استعمال کرنے پر آپ کا بجلی کا بِل 300 روپے سے 3500 روپے تک آتا ہے۔ جبکہ اگر آپ 201 یونٹ استعمال کریں تو اسی بِل میں پانچ ہزار روپے کا اضافہ ہوجاتا ہے اور آپ کو 8500 روپے سے لے کر 9000 روپے کا بِل ادا کرنا پڑتا ہے۔۔۔
بجلی کے بِلوں میں فی یونٹ کے حساب سے اضافے پر جو صارفین پر اضافی اور ناجائز بوجھ پڑا اس سے صارفین کی چیخیں نکل گئیں تھیں۔اب وزیر اعظم کی جانب سے پرٹیکٹڈ صارفین کیلیے رعائیتی پیکج دیا گیا ہے۔
دستاویزات کے مطابق 50 یونٹ تک والے لائف لائن صارفین کیلئے بجلی نرخ فی یونٹ 4 روپے 78 پیسے جب کہ 51 سے 100 یونٹ والے لائف لائن صارفین کیلئے فی یونٹ قیمت9 روپے37 پیسے برقرار رکھی گئی ہے۔
1 سے 100 یونٹ والے پروٹیکٹیڈ صارفین کیلئے فی یونٹ قیمت میں 6 روپے 14 پیسے کمی،پروٹیکٹیڈ صارفین کیلئےنرخ 14 روپے 67 پیسے سے کم کر کے8 روپے 52 پیسے فی یونٹ مقرر کی گئی ہے۔
101 سے 200 یونٹ والے صارفین کیلئے بجلی 6 روپے 14 پیسے سستی کردی گئی،اس کیٹگری کے صارفین کیلئے نرخ 17 روپے 65 پیسے سے کم کرکے11 روپے51 پیسے یونٹ مقرر کی گئی ہے۔
دستاویزات کے مطابق 300 یونٹ تک نان پروٹیکیڈ صارفین کیلئے بجلی 7 روپے 24 پیسے فی یونٹ سستی،ان صارفین کے لئے نرخ 41 روپے26 پیسے سے کم کرکے34 روپے 3 پیسے فی یونٹ مقرر کی گئی ہے۔
نان پروٹیکیڈ300 یونٹ سے زائد والے صارفین کیلئے نرخ 55 روپے 70 پیسے سے کم کرکے 48 روپے 46 پیسے مقرر کی گئی ہے۔
اس کیٹگری کے صارفین کیلئے بجلی فی یونٹ 7 روپے 24 پیسے سستی کی گئی ہے۔
دستاویزات کے مطابق ڈومیسٹک صارفین کیلئے بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 6 روپے71 پیسے کمی کی گئی ہے۔ ڈومیسٹک صارفین کیلئے فی یونٹ قیمت38 روپے34 پیسے سے کم کرکے31 روپے63 پیسے فی یونٹ مقرر کی گئی ہے۔
کمرشل صارفین کیلئے بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 8 روپے58 پیسے فی یونٹ کمی، اس کیٹگری کے صارفین کیلئےنرخ 71 روپے 6 پیسے سے کم کر کے 62 روپے47 پیسے مقرر کی گئی ہے۔
جنرل سروسز کے صارفین کیلئے بجلی نرخوں میں7 روپے18 پیسے فی یونٹ کمی ، اس کیٹگری کے صارفین کیلئےفی یونٹ قیمت56 روپے66 پیسے سے کم کرکے49 روپے 48 پیسے مقرر کی گئی ہے۔
صنعتوں کیلئے بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 7 روپے69 فی یونٹ کی کمی،صنعتوں کیلئے بجلی کی فی یونٹ قیمت 48 روپے 19 پیسے سے کم کرکے40 روپے51 پیسے مقرر کی گئی ہے۔
بلک کیٹگری کے صارفین کیلئے بجلی کی فی یونٹ قیمت7 روپے 18 پیسے کم کردی گئی۔ بلک کیٹگری صارفین کیلئے فی یونٹ قیمت 55 روپے 5 پیسے سے کم کرکے47 روپے87 پیسے مقرر کی گئی ہے۔
زرعی صارفین کیلئے فی یونٹ 7 روپے 18 پیسے بجلی سستی کردی گئی۔
وفاقی حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں کمی کرتے وقت کم یونٹ استعمال کرنے والوں کے ساتھ ساتھ زرعی شعبے کا بھی خیال رکھا ہے۔زراعت پاکستانی معیشت کا سب سے بڑا شعبہ رہا ہے ۔ پاکستان کی کل قابل کاشت اراضی 55ملین ہیکٹر ہے اور صرف 21ملین ہیکٹر زیرِ کاشت ہے۔ جی ڈی پی میں اس شعبے کا حصہ 22فیصد ہے۔ محنت کے باروزگار افراد کا 45فیصد اسی شعبے سے وابستہ ہے ۔ خوراک اور صنعتوں کو بہت سا خام مال مہیا کرنے کے علاوہ یہی شعبہ ملک کے لیے سب سے زیادہ زرِمبادلہ کمانے کا باعث بنتا ہے۔ اس طرح اس شعبے کو پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ اس شعبے کی پیداوار 1949ء میں جی ڈی پی کا 53فیصد تھی۔ جو کم ہوکر 22فیصد رہ گئی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زراعت سے وابستہ افراد کی حقیقی آمدنیاں کم ہوگئی ہیں اور غربت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اکثر حکومتوں نے اس شعبہ کی ترقی سے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے لیکن اب بھی کسی دوسرے شعبے کی نسبت اس شعبے کو قومی معیشت میں سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ پاکستان میں صنعتی ترقی پر بہت زور دیا جاتا ہے لیکن صنعتی ترقی کو ٹھوس بنیاد مہیا کرنے کے لیے زرعی شعبے کی ترقی لازمی شرط ہے۔ ٹیکسٹائل پاکستان کی سب سے بڑی صنعت ہے‘ جس کا کپاس کی فصل پر بھاری انحصارہے۔ پاکستان کے صنعتی سیکٹر کا جی ڈی پی میں 25فیصد حصہ ہے جس میں 10فیصد ٹیکسٹائل کا حصہ ہے۔ خدمات ہماری جی ڈی پی کا سب سے بڑا یعنی 53فیصد ہے لیکن اس کے لیے مشینری اور ٹیکنالوجی درآمد کرنے پر کثیر رقم خرچ کرنا پڑتی ہے‘ جس سے بیرونی قرض میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہماری معیشت زراعت پر کس قدر انحصار کرتی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہماری تقریباً 80فیصد برآمدات زراعت سے متعلق پروڈکٹس سے حاصل ہوتی ہیں ۔ اگر کسی سال ہماری کپاس کی فصل کم ہوجاتی ہے تو پورا معاشی منظرنامہ تبدیل ہوجاتا ہے۔ زراعت کا شعبہ ماضی میں ترقی کی دوڑ میں کافی پیچھے رہ گیا ہے جس کی وجہ سے ملک میں خوراک کی کمی، روزگار کی قلت، آمدنی کی تقسیم میں ناہمواری اور ادائیگیوں کے توازن میں خسارے جیسے مسائل نے جنم لیا۔ زراعت کو ترقی دے کر صورتِ حال کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ زراعت کی ترقی کے راستے کی رکاوٹیں نہ صرف کثیر ہیں بلکہ وہ ایک دوسرے سے منسلک بھی ہیں۔ زرعی شعبے کا سب سے بڑا مسئلہ آبپاشی کی ناکافی سہولتیں ہیں۔ پاکستان میں دنیا کا سب سے بڑا نہری آبپاشی کا نظام موجود ہے اور موسمی حالات بھی انتہائی سازگار ہیں۔ یہاں سارا سال فصلیں اُگائی جاسکتی ہیں۔ سندھ طاس کی کھاد اور ہموارزمین سونے پہ سہاگہ ہے۔ ان اسباب کے ہوتے ہوئے فی ایکڑ پیداوار میں بڑے اضافے کی گنجائش ہے اور زیرِکاشت رقبے میں بھی توسیع کی جاسکتی ہے لیکن اس سلسلے میں سب سے بڑی رکاوٹ یا سنگِ راہ پانی ذخیرہ کرنے کے لیے درکار آبی ذخیروں (ڈیم ) کی