ڈنڈا پیر اے وگڑیاں تگڑیاں دا

تحریر۔ شفقت اللہ مشتاق

2

زمانہ طالب علمی کا دور تھا بڑا ہی خوب دور تھا ویسے یہ ڈنڈے کا دور تھا اور مثل مشہور تھی کہ ڈنڈا پیر اے وگڑیاں تگڑیاں دا۔ یہ فقرہ اپنی بکل میں مطالب و معانی کا ایک سمندر سموئے ہوئے ہے اور سچی بات ہے بکل میں سمندر کا سمو جانا کوئی تھوڑی بہت نہیں بہت ہی انتہا کی غیر عقلی بات ہے اور زیادہ تر ادبی باتیں ایسے ہی ہوتی ہیں جن کو پڑھ کر ہر شخص مخمصے کا شکار ہو جاتا ہے شکار ہوجانے والے پر بعد کی کیفیت بہت ہی بعد میں آشکار ہوتی ہے۔ شکار اور آشکار میں ویسے آ کا فرق ہے اور آ سے آم بنتا ہے اور ہمیں آم کھانے سے غرض ہے گٹھلیاں گننے سے نہیں۔ یاد آیا سکول کے زمانے میں ہم تین کلاس فیلو تھے جن میں ہم دو ملویر پھپھیر تھے اور تیسرے کے والد ہمارے دونوں کے والدوں کے گہرے دوست تھے۔ گویا کہ اس کو خیالی طور پر ہمارا پتریر تصور کرلیا جائے۔ پتریروں، ملویروں اور پھپھیروں میں بھی بڑا خوفناک کمپیٹیشن ہوتا ہے۔ اسی لئے تو شریکے کا خودرو پودا راتوں رات پروان چڑھ جاتا ہے۔ ہم تینوں بظاہر ایک دوسرے کے دوست بھی تھے لیکن پڑھائی کے سلسلے میں اگر کسی کو مار پڑتی تھی یا کسی کے نمبر کم ہو جاتے تھے پھر تو ہم ایک دوسرے کے لئے عذاب الہی کی عملی شکل پیش کردیتے تھے۔ ہر ملنے والے سے اس فتح کا اظہار اور پھر تفاخر۔ اس ساری صورتحال پر ہمارے والدین بھی اچھے خاصے پریشان رہتے تھے اور وہ ہمارے تابناک مستقبل کے خواب بھی دیکھتے تھے اور ان خوابوں کی تعبیر کے لئے حتی المقدور کوشش کرتے تھے۔ ایک دفعہ کا ذکر کہ ایسی ہی صورتحال سے تنگ آکر ہم میں سے ایک صاحب کے والد نے ہمارے استاد سے دست بستہ عرض کی کہ استاد جی مجھے بچہ پڑھانا ہے اور اس کے عوض اس بچے کی ہڈیاں مجھے دے دینا اور چمڑا آپ کا ہوا۔ بہت ہی اعلی آفر اور استاد محترم نے بھی اس آفر کو خوشی خوشی قبول فرمایا اور اگلے دن ہی چمڑے کی وصولی کے لئے انہوں نے محنت اور ریاضت کی انتہا کردی اور پھر چیکیں ہی چیکیں اور خوفناک آہ وبقا۔ دیکھنے والے سب لوگوں کے سانس سوکھ گئے۔ یہ منظر عرش اور فرش نے مل کر دیکھا اور مجھے پورا یقین ہے کہ اس کے بعد عرش والے نے لوح محفوظ میں ردو بدل ضرور کی ہوگی۔ ہاں البتہ میرے متذکرہ بالا ہم جماعت کی نیندیں وقتی طور پر حرام ہو گئیں اور اس انقلابی تبدیلی کا جب ان کے والد بزرگوار کو علم ہوا تو پھر انہوں نے بھی استاد محترم کے خلاف اخیر احتجاج کیا تاہم اس احتجاج میں سوائے گل وات کے کوئی قابل ذکر نقصان نہیں ہوا تھا۔ آہستہ آہستہ زخم بھر گئے اور ہر چیز پر مٹی پڑ گئی۔ ہم شروع میں تو بہت ہی خوفزدہ ہو گئے تھے لیکن بعد میں اپنے بینچ فلو کی حالت زار پر بہت خوش ہوئے۔ کیا کسی نے خوب کہا ہے( غم ہے یا خوشی ہے تو۔۔۔میری زندگی ہے تو)۔ ہمیشہ حالات ایک جیسے نہیں رہتے ہیں پھر تو ایک دن میری بھی باری آگئی۔ اتنی مدت بعد آج پھر ساری پرانی پیڑیں جاگ گئی ہیں اور میں مکمل طور پر اس بات کا قائل ہو گیا ہوں کہ مار سوار ہوتی ہے۔ اب تو خیر حالات یکسو بدل گئے ہیں اور بیانیہ۔ مار نہیں پیار بہت ہی مقبول ہو گیا ہے۔ کاش ہمارے استاد آج زندہ ہوتے تو یقیننا وہ جیلوں میں ہوتے یا کم از کم بنام وغیرہ کی قطارمیں شامل ہوتے لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ وہ جہاں بھی ہوتے بڑے ہی مقبول ہوتے کیونکہ ان میں جو احساس ذمہ داری تھی وہ آج چراغ لے کر بھی ڈھونڈا جائے تو اس کا ملنا ممکن نہیں ہے۔ ہمارے ایک کلاس فیلو کا نام مقبول بھی تھا اور وہ ہم سے عمر میں قدرے بڑا تھا اور اس کو برف کے گولے کھانے کا بڑا ہی شوق تھا۔ میں نے بھی ایک دفعہ اس کی تقلید میں جی بھر کر گولے کھا لئے اور پھر میں نے ساری رات کھانس کھانس کر والدین کے ناک میں دم کردیا تھا اور میرے والد بزرگوار نے صبح سویرے مجھے حافظ صاحب سے دم کروایا تھا اور پھر میں سکول چلا گیا تھا اس روز میں نے خوراک میں ہلکی سی تبدیلی کرلی اور اس دن میں نے کچے آم کھائے اور وہ اچھے خاصے۔ لوگوں کی آنکھوں میں خون اتر آتا ہے میری تو اس رات ناک میں خون آگیا پھر تو باتوں ہی باتوں میں ابا حضور نے میری ٹھیک ٹھاک چھترول کی تھی اور اس واقعہ کی بدولت میں بندہ بن گیا اور ناک کی سیدھ میں چلنا شروع ہوگیا۔ ناک بھی ہمارے ہاں مختلف کردار ادا کرتی ہے جیسا کہ میں نے مذکورہ سطور میں قلمبند کیا ہے ابھی تو میں ایف ایس سی میں ٹکا کر فلمیں دیکھوں گا اور پھر امتحان میں پورے پرچوں میں فیل ہو جاوں گا تب جا کر والدین کی ناک کٹوا دوں گا۔ ایسی حالت میں جب ناک کٹتی ہے تو خون کے نہ بہنے کی وجہ مجھے آج تک سمجھ نہیں لگی ہے۔ خیر وقت کے ساتھ ساتھ چیزوں کی سمجھ لگتی ہے اور پوری سمجھ تو اس دن آتی ہے جب والدین روٹھ جاتے ہیں اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھوڑ جاتے ہیں۔ چھت غائب اور چھت کے بغیر انسان کتنا غیر محفوظ ہوتا ہے کاش کوئی سمجھائے سب کو
شیخ سعدی رح نے ہم پر چودہ طبق روشن کرنے کی اخیر کوشش کی ہے۔ فرماتے ہیں ایک دفعہ میں اپنے والد کے ساتھ میلہ دیکھنے چلا گیا اور میں نے اپنے والد کی انگلی پکڑی ہوئی تھی۔ میلے کی رنگینیوں میں ایسا کھویا کہ مجھ سے والد کی انگلی چھوٹ گئی۔ میں کہیں چلا گیا اور میرے والد کہیں اور چلے گئے۔ بادی النظر میں والد بھی میلے کی کسی خوبصورت چیز میں کھو گئے ہو نگے۔ کچھ دیر بعد ہم دونوں

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.