تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے

منشاقاضی حسب منشا

2

آپ مانے یا نہ مانے رتبے میں آپ کسی سے کم نہیں ، کوئی اگر کسی ملک کا سربراہ ہے تو ایسی ہی ایک ریاست کے حکمران آپ بھی ہیں تھوڑا سا غور فرمائیں تو لا تعداد اعضاء پر مشتمل آپ کی ریاست آپ کا اپنا وجود ہے جس کے کسی عضو کو آپ کے خلاف لب کشائی کا یارا نہیں آپ چاہیں تو انہیں غم دوراں میں الجھا دیں ،، چاہیں تو غم جاناں پہ لگا دیں چاہے تو انسانوں کے بنائے ہوئے نظام زندگی کا خوگر بنا دیں ، چاہئیں تو قوانین خداوندی کی راہ دکھا دیں ، ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ نے اپنے پاؤں کو مشرق کی طرف چلنے کا حکم دیا ہو اور وہ مغرب کی طرف چل دیئے ہوں ، پھر آپ کیوں سوچتے ہیں کہ کوئی دوسرا آئے اور آپ کی دنیا سنوارے ، علامہ اقبال مرحوم نے درست کہا تھا۔

تیرے دریا میں طوفان کیوں نہیں ہے

خودی تیری مسلمان کیوں نہیں ہے

عبث ہے شکوہ ء تقدیر یزداں

تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے

میرا سادہ سا سوال یہ ہے کہ جب آپ با اختیار ہوتے ہوئے اپنی اس ریاست میں قوانین الٰہی کو نافذ نہیں کر پا رہے تو دوسروں سے کیا گلہ سنا نہیں آپ نے

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

اور اس سے بھی بڑھ کر قوانین خداوندی کے مطابق آپ کو یہ حق ہی نہیں پہنچتا کہ کسی سے ایسے کام کا مطالبہ کریں جو آپ خود نہیں کر رہے ارشاد خداوندی ہے کیا لوگوں کو بھلائیوں کا حکم کرتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو باوجود کہ تم کتاب پڑھتے ہو کیا اتنی بھی تم میں سمجھ نہیں اے ایمان والو کیوں کہتے ہو جو تم نہیں کرتے اللہ کے نزدیک بڑی ناپسند بات ہے جو کہو اس کو کرو نہیں، فرصت ملے تو سوچیئے گا مولانا ابو الکلام کلام آزاد کے الفاظ میں کہ ،، دنیا میں مشکل ترین کام صرف ایک ہے کہ انسان اپنے نفس کی کمزوریاں، اپنے کردار کی کوتاہیاں اور اپنی سیرت کی چوریاں پکڑے ، میں ممنون احسان ہوں محترمہ شائلہ صفوان کی کاوش کا ، جنہوں نوجوان نسل کی فصل کی فکری رعنائیوں ، دلفریبیوں اور دلچسپیوں کا مرکز و محور اعتماد ، اعتبار اور یقین کی بنیادوں پر استوار کیا ہے ، مجھے تو پہلی بار ایسی نسل کی باتیں سننے کا اتفاق ہوا ہے ، جو کہتے ہیں وہ کرتے ہیں ، میں نے ان کو باعمل پایا ہے ، یہی وجہ ہے کہ کہنے کے درخت میں خوشبو نہیں ہوتی ، کرنے کے درخت میں خوشبو ہوتی ہے اور آج محترمہ مبشرہ طیبہ نے جو باتیں کی ہیں وہ فضا میں خوشبو کی طرح پھیل گئیں ہیں بقول پروین شاکر کے

فضا میں پھیل چلی میری بات کی خوشبو

ابھی ہواؤں سے تو میں نے کچھ کہا ہی نہیں

نسل نو کی ذھانتوں اور فطانتوں کے حسین امتزاج سے مسرتوں کا ماحول تخلیق پایا اور میں ابھی تک اس سحر سے باھر نہیں آیا ، یوتھ بیٹھک وہ شجر سایہ دار اور ثمر بار ہے کہ اس کے نیچے علم و ادب کی تشنگی دور ہوتی ہے ، حفظہ ارحم طارق کی سربراہی میں یہ قافلہ ء علم و ادب اپنی منزل مراد پر پہنچ کر دم لے گا اور دنیا جان لے گی کہ پاکستان کے افق پر علم و ہنر اور اعتماد و یقین کا سورج کیوں کر طلوع ہوتا ہے آج کی خطیبہ مبشرہ طیبہ علم کلام سے نکل کر علم و عمل کی بات کر رہی تھیں ، مہمانوں میں عرفان احسن، نعمان خالد، ہمارے سی ٹی این فورم کے چیئرمین جناب مسعود علی خان، انجینیئر شائلہ صفوان ماہ نور سہیل ، فضہ طلعت اور آج کی خصوصی مقررہ مبشرہ طیبہ نے اپنی گفتگو میں نوجوان نسل کو اعتماد ، اعتبار اور یقین کا درس دیا ہے یقین ہمیشہ صدیق پیدا کرتا ہے شکوک و شبہات نے ابو جہل پیدا کیئے ہیں ، سعد ارشاد، زویا فرخ ، سحر عثمان، فقیہ عقیل ، صالح آفتاب ، سدرہ ایاز ، مریم مقصود، روحامہ کاشف، فاطمہ عنبر اور دعا بتول کی موجودگی ماحول میں چاندنی بکھیر رہی تھی، میں تو ان کے درمیان اپنے اپ کو یوں محسوس کر رہا تھا کہ شاید میرے بارے میں یہ کہہ رہے ہوں یا اگلے وقتوں کہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو جو میں نغمہ کو اندر دو ربہ کہتے ہیں اتنی خوبصورت تقریب اس میں توقیر احمد شریفی کی موجودگی اخر میں ماحول میں اسودگی پیدا کر رہی تھی اور محترمہ عذرا مجیب اپنے شریک سفر کے ساتھ خامشی کی چادر اوڑھے تشریف فرما تھیں اور میجر مجیب آفتاب فصاحت و بلاغت کے دریا بہا رہے تھے ، عفت عارف کی دلچسپیوں کا مرکز و محور خود سفری سہولتوں اور ضرورتوں پر مرکوز تھا ، ہمارے بین الاقوامی شہرت یافتہ ہائیکر اینڈ بائیکر عادل وحید کی آمد متوقع تھی ، محترمہ فردوس نثار اپنی تجارتی سرگرمیوں اور چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے زیر اہتمام ہونے والے سیمنار میں مصروف تھی اور انہوں نے اپنا عذر معذرت نوٹ کروا دیا تھا ، ائر کموڈور خالد چشتی ، محترم شعیب بن عزیز اور پروفیسر ڈاکٹر شاھینہ آصف کی کمی شدت سے محسوس کی گئی ، ایوارڈ حاصل کرنے والوں کی مفصل فہرست موجود ہے ، کالم تنگیِ داماں کی شکایت کر رہا ہے ، برگیڈیئر عرفان علی اور آپ کی بیگم کے تذکرے کے بغیر بات نہیں بنتی اور ان کے لیکچر انسانی رویئے اور ان کے ماحول پر اثرات کے حوالے سے شروع ہو رہے ہیں ، سی ٹی این کے چیئرمین مسعود علی خان جو تذبذب کا شکار تھے ، ان کی یہ کیفیت یقین میں بدل گئی ہے اور ان کا پختہ ارادہ ہے کہ سی ٹی این فورم کے لئیے ہال ہمیشہ موجود رہے گا ، جس طرح شاعر مشرق علامہ اقبال کے مخاطب نوجوان تھے بالکل اسی طرح مسعود علی خان نوجوانوں کی صلاحیتوں کے معترف ہیں اور اس میں

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.