خبردار ہوشیار والدین متوجہ ہوں !! ۔ 6 جنازے ایک ساتھ، ذمہ دار کون ؟

شاہد نسیم چوہدری ( ٹارگٹ) 0300-6668477

8

کتنے ہی خواب بکھر گئے۔۔۔ کتنی ہی کلیاں مرجھا گئیں۔۔۔ کوٹ مومن کے نواحی علاقے جناح کالونی میں پیش آنے والا اندوہناک واقعہ دل چیر دینے والا ہے.
سرگودھا،کوٹ مومن چک نمبر 12 جنوبی جناح کالونی میں دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا جہاں 4بہنوں سمیت 6 کمسن بچیاں گندم ذخیرہ کرنے وا لی پیٹی (بھڑولے )میں دم گھٹنے سے جاں بحق ہو گئیں۔۔۔
اہلخانہ نے گندم ذخیرہ کرنے کے لئے پیٹی نما بھڑولے کوصفائی کے بعد ترچھا کر کے رکھا ہوا تھا اس دوران بچیاں کھیلتے ہوئے اس کے اندر جا گھسیں اوربھڑولے کا دروازہ بند ہو گیا،بچیوں کوگھروں میں نہ پاکر اہلخانہ کو تشویش ہوئی تو انہوں نے تلاش شروع کردی، بھڑولے میں دیکھنے پر اندر ان کی لاشیں پڑی تھیں ، یاسر علی کی چار بیٹیاں 8سالہ سمعیہ،6سالہ آمنہ،4سالہ سویرا،1سالہ دعا فاطمہ، ا ن کے رشتہ دار فیاض کی 7سالہ بیٹی مریم اور ریاض کی بیٹی6سالہ سونیا جاں بحق ہونے والوں میں شامل ہیں وزیراعلیٰ پنجاب نے سوگوار خاندان سے تعزیت اور ہمدردی کا اظہار کیا ہے ۔۔ چھ معصوم بچیاں—مریم، سونیا، دعا فاطمہ، سویرا رانی، آمنہ اور سمیہ—جو زندگی کے ابتدائی رنگوں سے محظوظ ہو رہی تھیں، چند لمحوں کی غفلت کے باعث ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئیں۔ ان کے ہنستے چہروں، چمکتی آنکھوں اور قلقاریاں بکھیرتی سانسوں کو ایک بھڑولا نگل گیا۔
ریسکیو ذرائع کے مطابق بچیاں گندم کے اس بھڑولے میں کھیلتی کھیلتی چلی گئیں، جو صفائی کے بعد زمین پر رکھا گیا تھا۔ اہلِ خانہ کسی ضروری کام سے باہر گئے، اور بچوں کے لیے یہ کھیل موت کا کھیل بن گیا۔ ڈھکن بند ہو گیا، آکسیجن کم پڑی، اور دم گھٹنے سے زندگی کی ڈور ٹوٹ گئی۔ زمین پر پڑے ایک برتن میں سانسیں ختم ہو گئیں، قہقہے خاموش ہو گئے، اور جنازے اٹھنے لگے۔
یہ واقعہ کسی ایک گھر کا المیہ نہیں، بلکہ پوری قوم کے اجتماعی ضمیر پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ کہاں ہے وہ شعور جو والدین کو بچوں کی حفاظت کا احساس دلاتا ہے؟ کہاں ہے وہ معاشرتی تربیت جو خطرات سے بچنے کے اصول سکھاتی ہے؟ کہاں ہیں وہ حفاظتی انتظامات جن کی عدم موجودگی نے چھ معصوم جانیں نگل لیں؟
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے اس واقعے پر اظہارِ افسوس کرتے ہوئے لواحقین سے ہمدردی کا پیغام دیا۔ یہ اظہار اپنی جگہ، لیکن ایسے حادثات صرف تعزیت سے نہیں رک سکتے۔ ان کے لیے شعور، تدبر اور مستقل حفاظتی نظام ناگزیر ہے۔
یہ واقعہ ہمیں جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے کہ آج کے تیز رفتار دور میں والدین بچوں پر مکمل نظر نہیں رکھتے۔ گھریلو مصروفیات، موبائل فونز، معاشی دوڑ، سب کچھ اہم ہے، مگر کیا ایک لمحہ غفلت کے بدلے چھ جنازے اٹھانا قبول ہے؟ کیا والدین کے لیے بچوں کی سلامتی سے بڑا کوئی فرض ہے؟بچے محض ایک نعمت نہیں بلکہ ایک امانت بھی ہیں۔ ان کی زندگی، ان کی سانسیں، ان کی ہنسی۔۔۔ سب کچھ ہمارے ذمے ہے۔ ہمیں جان لینا چاہیے کہ ان کے گرد موجود ہر شے—پانی کی ٹنکی، گیس سلنڈر، کھلی چھت، بھڑولا، کنواں یا بجلی کا بورڈ—ممکنہ خطرہ بن سکتا ہے۔افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے دیہات اور قصبات میں گندم، چاول اور دیگر اجناس ذخیرہ کرنے کے لیے جو روایتی طریقے اپنائے جاتے ہیں، وہ بچوں کے لیے موت کا گڑھا بن سکتے ہیں۔ نہ کوئی حفاظتی جال، نہ کوئی نشان دہی، نہ کوئی حفاظتی تعلیم۔ افسوس کہ ہمارے ہاں آج بھی احتیاطی تدابیر کو غیر ضروری سمجھا جاتا ہے، اور جب حادثہ ہوتا ہے تو صرف کفِ افسوس ملنے کو رہ جاتے ہیں۔یہ تحریر صرف سوگ کا اظہار نہیں، ایک اجتماعی بیداری کی اپیل ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ والدین گھریلو ماحول کا جائزہ لیں، ہر اس چیز کو محفوظ بنائیں جو بچے کی جان لے سکتی ہے۔ اپنے بچوں پر مسلسل نگاہ رکھیں، ان کی مصروفیات، کھیلنے کی جگہ، ان کے دوست، سب پر نظر رکھیں۔ریاست کو بھی آگے آنا ہو گا۔ ہر یونین کونسل کی سطح پر حفاظتی تربیت کا اہتمام ہونا چاہیے۔ اسکولوں میں خطرات سے بچاؤ کے موضوع پر لیکچرز، ویڈیوز، اور سیمینارز منعقد کیے جائیں۔ میڈیا کو چاہیے کہ وہ اس سانحے کو اجاگر کرے تاکہ ایسے واقعات سے سبق حاصل کیا جا سکے۔
اور آخر میں، ہم سب کو یہ عہد کرنا ہو گا کہ آئندہ کسی بھڑولے میں کوئی کلی نہ مرے، کسی اندھیرے میں کوئی بچہ دم نہ توڑے، کسی گھر سے ایک ساتھ چھ جنازے نہ اٹھیں۔ اگر ہم نے اس واقعے سے سبق نہ سیکھا، تو اگلی بار شاید سوگ ہمارا ہو۔ زندہ لاشوں جیسے ماں باپ، بکھری ہوئی چوٹیاں، روتی ہوئی گلیاں اور خاموش چھتیں اب اس اندوہناک حادثے کی گواہ بن گئی ہیں۔یہ واقعہ صرف ایک غفلت کا نتیجہ نہیں، یہ معاشرتی بے حسی، والدین کی بے خبری اور حفاظتی شعور کی کمی کا ثبوت ہے۔ بچیاں کھیل رہی تھیں اور ان پر کوئی نظر رکھنے والا نہ تھا۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا، نہ آخری بار ہو گا اگر ہم نے اپنی روش نہ بدلی۔
معصوم بچے تجسس کی دنیا میں رہتے ہیں۔ ان کے لیے ہر ڈھکن، ہر سوراخ، ہر اندھیری جگہ ایک نئی دنیا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ بچے ناسمجھ ہوتے ہیں، انہیں خطرات کا شعور نہیں ہوتا۔ ماں باپ اور سرپرستوں کی ذمے داری ہے کہ ان پر ہر لمحہ نگاہ رکھیں۔ خاص طور پر دیہاتی علاقوں میں جہاں ایسے گندم کے ذخیرہ کرنے والے بھڑولے یا کنویں کھلے ہوتے ہیں، والدین کو مزید چوکنا ہونے کی ضرورت ہے۔
یہ ضروری ہے کہ ایسے مقامات کو بچوں کی پہنچ سے دور رکھا جائے، یا ان پر واضح نشانیاں لگائی جائیں۔ ڈھکنوں کو مضبوط طریقے سے بند کیا جائے اور بچوں کو ایسے مقامات کے قریب جانے سے روکا جائے۔ صرف ایک لمحے کی غفلت چھ جانوں کو نگل سکتی ہے، تو سوچئے روزانہ کتنے گھر ایسے خطرات میں گھرے ہیں۔
آج ضرورت ہے کہ ہم اس واقعے کو عبرت کی مثال بنائیں، کاش کوئی لمحہ واپس آ سکتا۔ کاش وہ

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.