مجوزہ آئینی ترامیم کی منظوری کیلئے پیش رفت

10

اداریہ

پاکستان کے آئین میں مجوزہ ترامیم کے حوالے بحث اب تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت سے مربوط ہورہی ہے ۔مجوزہ قانونی مسودے کے منظر عام پر آنے کے بعد اسے متفقہ بنانے کی خاطر کام ہورہا ہے ۔سٹیک ہولڈرز میں اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے ڈائیلاگ ہورہے ہیں ۔آئین میں 26ویں ترمیم کے کئی نکات پر کچھ جماعتوں کے اعتراضات ختم کئے جانے کی اطلاعات ہیں ۔حکومت کی جانب سے تمام سیاسی جماعتوں کو اس کیلئے کام کرنے پر آمادہ کرلیا بڑی کامیابی ہے کیونکہ کچھ جماعتیں تو اس حوالے سے بات ہی کرنے کی روادار نہیں تھیں ان سب کو راضی کرلینا ہی آئینی ترامیم کی جانب اہم پیش رفت قرار دیا جارہا ہے ۔اصولی طور پر حکومت کی جانب سے اراکین اسمبلی کی مطلوبہ تعداد پوری کرنے کی بات اہم ہے اگرمجوزہ آئینی ترامیم کی منظوری کیلئے مطلوبہ تعداد پوری کرلی جائے تو پھر قانون سازی کے اس عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں آسانی رہے گی ،دوسری جانب مجوزہ آئینی ترامیم کے مسودے پر جزوی طور پر اتفاق رائے پیدا ہونے کا تاثر بھی سامنے آیا ہے ۔ائینی عدالت کے قیام کا معاملہ اہم ہے کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری آئینی عدالت کے قیام کو قائد اعظم محمد علی جناح کا خواب قرار دیتے ہیں اور وہ اسی نکتے پر کئی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو قائل بھی کرچکے ہیں جس میں جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی مجوزہ آئینی ترامیم کے حوالے سے مذاکرات کی میز پر آکر اپنے مسودے کو پیش کرنا اہم کامیابی قرار دی جارہی ہے اس تناظر میں اب مذاکراتی عمل کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے ذیلی کمیٹی بھی قائم کی گئی ہے ۔سیاستدانوں کی جانب سے مجوزہ ترامیم کے مسودے رپر غور وفکر کا سلسلہ جاری ہے اس حوالے سے حال ہی میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی نائب صدر سینیٹر شیری رحمٰن سے فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کے وفد نے ملاقات کی جس میں ملک میں آئینی عدالت کے قیام کی اصولی طور پر حمایت کی گئی۔ نائب صدر پاکستان پیپلز پارٹی سینیٹر شیری رحمٰن سے فافن کے وفد نے ملاقات کی جس میں فافن نے اصولی طور پر پیپلز پارٹی کے ساتھ آئینی عدالت کے قیام پر اتفاق کیا۔فافن کے وفد میں نیشنل کوآرڈینیٹر راشد چوہدری، صلاح الدین اور جوبلی بانو بھی شامل تھیں، سینیٹر شیری رحمٰن نے فافن کے وفد کو وفاقی آئینی عدالت کے معاملے پر مسودے کے حوالے سے آگاہ کیا، فافن نے اصولی طور پر پی پی پی کے ساتھ آئینی عدالت کے قیام پر اتفاق کرتے ہوئے اپنی تجاویز بھی پیش کیں۔اس موقع پر سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں 26ویں آئینی ترمیم 18ویں ترمیم کی طرح شفاف اور اتفاق رائے سے ہو، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر سول سوسائٹی کو وسیع تر مشاورت کا حصہ بنا رہے ہیں، ان ملاقاتوں کا مقصد وفاقی آئینی عدالت کے قیام کے حوالے سے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینا ہے۔بلاشبہ آئین میں مجوزہ ترامیم کے مسودے پر اتفاق رائے سے منظوری کے لئے پیش رفت ہوئی ہے ۔حکومت اور اتحادیوں نے نمبرگیم پوری کرنے کے حوالے سے انتظامات مکمل کرلئے ہیں ۔حکومت اور اسکے اتحادیوں کے بیرون ممالک سے اراکین اسمبلی کی واپسی کے عمل نے اس کام کو انتہائی تیز رفتاری سے پایہ تکمیل تک پہنچانے کی راہیں کھول دی ہیں ۔اتفاق رائے کیساتھ آئین میں ترامیم کی منظوری سے ملک میں اصلاحاتی عمل کو تقویت ملے گی اور ملک میں اس حوالے سے پائے جانے والے کئی ابہام ختم ہونگے ،جس سے عوام کے لئے آسانیاں پیدا ہوسکیں گی ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.