میں نے آئین بنتے دیکھا

15

منشا قاضی حسب منشا

پھول نے سحر کے وقت اسمان سے فریاد کی وہ اس سے میری شبنم چھین لی گئی ہے اسے کیا معلوم تھا کہ اسمان اپنے ستارے کھو چکا ہے ٹیگور کا یہ گراں مایہ جملہ منجملہ اپنے اندر ایثار قربانی کے کئی ابواب لیے ہوئے ہے ۔ غیر ملکی لوگ پاکستان بن جانے کے بعد جب یہ پوچھتے تھے کہ پاکستان کا ائین کہاں ہے ۔ کیا پاکستان سے لے کر اج تک جن لوگوں نے پاکستان بنتے دیکھا ہے انہوں نے ائین بنتے نہیں دیکھا تھا اگر دیکھا تھا تو انہوں نے انے والی نسلوں کے لیے کچھ نہیں کیا ۔ انے والی نسلیں اپنے محسنین الطاف حسن قریشی اور پروفیسر ڈاکٹر امان اللہ کو صبح قیامت تک نہ بھول پائیں گی جن کی جستجو اور تحقیق کے بطن سے میں نے ائین بنتے دیکھا کی پہلی جلد تولد ہوئی ہے ۔ مصنف الطاف حسن قریشی کے خیال کو پروفیسر ڈاکٹر امان ء اللہ نے پیکر محسوس میں ڈھال دیا ہے ۔مصنف اور شریک مصنف نے اس کتاب کا انتخاب اپنی نئی نسل کے نام کیا ہے جو قانون کی حکمرانی کا بول بالا کرنے میں سنجیدہ نظر اتی ہے ۔ میں نے ائین بنتے دیکھا پہلی جلد کا مقدمہ ائین فہمی کے ناقابل فراموش تجربات اپ پڑھ لیں تو اپ کو کتاب کی اہمیت اور افادیت کا پتہ چل جائے گا ۔سیاسی کارکنوں صحافیوں اور مہذب شہریوں کے لیے یہ کتاب اتنی ضروری ہے جتنا صبح کا ناشتہ کتاب کی افادیت کے بارے میں بیرسٹر نسیم احمد باجوہ رقم طراز ہیں ۔

عہد جدید میں صرف وہی ممالک معزز شمار ہوتے ہیں جو قانون کی حکمرانی اور ائین کی بالادستی کے تقاضے عملا پورے کرتے ہیں پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے کیونکہ اس کی تخلیق کی ایک منظم قانونی اور سیاسی جدوجہد کی رہین منت ہے ۔ برصغیر کے مسلمانوں نے سخت نظریاتی معرکہ ارائیوں لا تعداد قربانیوں اور قائد اعظم کی بے مثل قیادت کی بدولت انگریزوں کی غلامی اور ہندوؤں کی تباہ کن اکثریت سے نجات پائی ان کی 90 سالہ ائینی جدوجہد سے ہماری نئی نسل کم ہی واقف ہے خوش قسمتی سے پاکستان کے معروف صحافی اور سیاسی تجزیہ نگار الطاف حسن قریشی نے یہ داستان اپنی تازہ ترین تصنیف میں نے ائین بنتے دیکھا میں عام فہم اور دلچسپ پیرائے میں قلم بند کر دی ہے وہ ائین قانون اور سیاست کے مشکل مسائل پر نصف صدی سے لکھتے ائے ہیں پروفیسر ڈاکٹر امان ء اللہ نے انہیں قانونی معاونت فراہم کی ہے وہ پنجاب یونیورسٹی میں لافیکلٹی کے ڈین ہیں اور 30 سال سے ائین و قانون کی تعلیم و تدریس کرتے ائے ہیں مجھے امید ہے کہ یہ کتاب قانون دان طبقوں سیاسی کارکنوں صحافیوں اور پڑھے لکھے شہریوں کے لیے نہایت مفید ثابت ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے اندر قانون کی حکمرانی کا شعور گہرا کرے گی یہ تصنیف ہمارے سیاسی اور ائینی ادب میں ایک قابل قدر اضافہ ہے ۔ اس کتاب کے مصنف کو پوری دنیا جانتی ہے ۔مصنف کے ساتھ شریک مصنف جو ہمارے گمنام ہیرو ہیں اور بے شمار محاسن کا مجموعہ ہیں وہ بڑے خوش نصیب ہیں کہ انہیں گھر سے نکلتے ہی منزل مل گئی ہے ۔

رکے تو چاند چلے تو ہواؤں جیسا ہے

یہ شخص دھوپ میں چھاؤں جیسا ہے

پروفیسر ڈاکٹر امان ء اللہ خان ڈیرہ غازی خان کے گاؤں مانہ احمدانی میں جناب صوفی خدا بخش کے ہاں اپریل 1967 میں پیدا ہوئے انہوں نے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام اباد سے ایل ایل بی انرز پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل ایم اور لندن یونیورسٹی سے 2009 میں پی ایچ ڈی کی ۔ ان کے تحقیقی مقالے کا عنوان Judicial Activism and Human Rights in India and Pakistan تھا جسے ایکسٹرنل ممتحن لندن سکول اف اکنامکس کے پروفیسر کونر گرنی نے ایکسیلنٹ قرار دیا ۔ یہ مقالہ پنجاب یونیورسٹی نے اس وقت کے چیف جسٹس اف پاکستان کو بھیجا جس پر انہوں نے مقالہ نگار کو تعریفی خط لکھا اور اسے قانونی ادب میں نادر اضافہ قرار دیا ڈاکٹریٹ کی یہ تحقیق شائع ہو چکی ہے جس کا تعلق ائین کی بالادستی قانون کی حکمرانی اور جمہوریت سے غیر متزلزل وابستگی سے ہے ڈاکٹر صاحب 30 برسوں سے پنجاب یونیورسٹی سے وابستہ ہیں اور ڈین کے منصب تک پہنچ گئے اور اج کل وہ پرنسیپل کے عہدہ ء جلیلہ پر فائز ہیں ۔ انہیں بھارت کی ساؤتھ ایشیا یونیورسٹی نیو دہلی میں پڑھانے کا اعزاز بھی حاصل ہے وہ 2006 سے انگلینڈ اور ویلز کے سولسٹر چلے ا رہے ہیں پروفیسر صاحب قومی اور بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کرتے اور تحقیقی مقالے لکھتے رہے ہیں انہیں انگریزی عربی اردو اور سرائیکی زبانوں پر عبور حاصل ہے ان کا مطالعہ وسیع مشاہدہ گہرا اور انداز گفتگو پرتاثیر ہے انہیں ائین و قانون کے مختلف پہلوؤں پر تحقیق کرنے اور انسانی نفسیات کی نشوونما میں خصوصی دلچسپی ہے ان کے طلباء عدلیہ مقننہ اور انتظامیہ میں اعلی عہدوں پر فائز ہیں اور اج کل راقم بھی ان کے شاگردوں میں شمار ہوتا ہے ڈاکٹر امان ء اللہ عجوبہ روزگار شخصیت ہیں اپ نے شریک مصنف کے طور پر اپنی تحقیقی اور حقیقی مہارت کا ثبوت دیا ہے ۔ خوش قسمتی سے ہمارے درمیان الطاف حسن قریشی ایسی شخصیت موجود ہے جنہوں نے اپنی زندگی کے ابتدائی 15 سال مشرقی پنجاب کے شہر سرسہ میں گزارے وہ ہندوؤں کی چال بازیوں اور شدید متعصبانہ رویوں کے پیہم زخم کھاتے اور تحریک پاکستان کے خلاف ان کے زہریلے تیر برداشت کرتے رہے الطاف حسین قریشی اس حسن اتفاق سے بھی مالا مال ہوئے کہ تین جون 1947 کی صبح گورنمنٹ ہائی سکول سرسہ میں میٹرک کے نتائج کا اعلان ہوا تو وہ سکول میں فرسٹ ائے پھر اسی شام وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ال انڈیا ریڈیو پر تقسیم ہند کے منصوبے کا اعلان کیا جس کی توثیق میں پنڈت جواہر نہرو سردار بلدیو سنگھ اور قائد اعظم محمد علی جناح نے مختصر تقریریں کیں ۔ اس طرح پاکستان کا قیام یقینی ہو گیا پاکستان ہجرت کرنے کے بعد الطاف حسن قریشی نے دستوری مہمات میں حصہ لیا اور مختلف تجربات سے روشناس ہوئے انہوں نے پنجاب یونیورسٹی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.