موبائل کی قید میں نسلِ نو

تحریر: رخسانہ سحر

3

کبھی وہ وقت تھا جب والد کے قدموں کی آہٹ سے بچے کتابیں سنبھال لیتے تھے، اور اب یہ وقت ہے کہ والد کے لاکھ پکارنے پر بھی بچے موبائل فون سے نظریں نہیں اٹھاتے۔ والدین صرف یہ سمجھتے رہے کہ “بچہ چپ ہے، مصروف ہے، شاید گیم کھیل رہا ہے” — مگر حقیقت یہ ہے کہ اس خاموشی کے پیچھے ایک اندھیری کھائی ہے، جہاں بے راہ روی، فحاشی، نفسیاتی الجھنیں، اور خاندانی رشتوں سے بیزاری جیسے سانپ رینگ رہے ہیں۔
آج ہر دس سالہ بچہ اسمارٹ فون لیے پھرتا ہے، جس کی اسکرین پر TikTok، Instagram، اور بے ہودہ ویڈیوز کی بھرمار ہے۔ والدین صرف خوش ہوتے ہیں کہ “ہمارا بچہ جدید ٹیکنالوجی سیکھ رہا ہے” — مگر یہ نہیں دیکھتے کہ وہ بچہ دن بہ دن ماں باپ سے، اقدار سے، دین سے اور کتابوں سے دور ہوتا جا رہا ہے۔

کراچی میں حالیہ واقعہ لیجیے: ایک 14 سالہ لڑکی، جو آن لائن ایک لڑکے کے “لائکس” اور “کمنٹس” سے متاثر ہو کر رات کے وقت گھر سے فرار ہو گئی۔ والدین صبح اٹھے تو کمرہ خالی، اور بیٹی انجان شہر میں، “محبت” کے جھوٹے سراب کے پیچھے۔ جب حقیقت کھلی، تو سب کچھ لٹ چکا تھا۔
موبائل فون ایک طرف جہاں دنیا سے رابطے کا مؤثر ذریعہ بن چکے ہیں، وہیں دوسری طرف بے راہ روی، تنہائی، اور والدین سے دوری کا سبب بھی بن رہے ہیں، خاص طور پر نئی نسل کے لیے۔
جب بچے والدین سے جذباتی طور پر دور ہو جاتے ہیں، تو وہ اپنی دنیا خود بساتے ہیں — اور موبائل اس دنیا کا مرکزی دروازہ بن جاتا ہے۔

موبائل میں ہر چیز چند کلکس کی دوری پر ہے — چاہے وہ علم ہو یا فتنہ۔ بغیر نگرانی کے موبائل دینا ایسا ہی ہے جیسے ایک چھوٹے بچے کو گاڑی کی چابی تھما دینا۔

نئی نسل کو ہر وقت خود کو “دکھانے” کی خواہش ہے — اس کی جڑیں “likes” اور “views” کی دوڑ میں چھپی ہیں۔ یہ نفسیاتی دباؤ اکثر بچوں کو ایسے کام کرنے پر مجبور کر دیتا ہے جن کا وہ تصور بھی نہ کرتے۔
والدین کو چاہیے کہ بچوں سے صرف “کیا کر رہے ہو؟” نہ پوچھیں، بلکہ ان کے ساتھ وقت گزاریں، ان کی دلچسپیوں کو سمجھیں، تاکہ وہ آپ سے بات چھپانے پر مجبور نہ ہوں۔
ٹیکنالوجی کو دشمن نہ سمجھیں، بلکہ اس کے استعمال کو سمجھیں: خود والدین بھی سیکھیں کہ موبائل میں کیا ہوتا ہے، کون سی ایپس خطرناک ہیں، اور کس طرح parental control لگایا جا سکتا ہے۔
اسلامی اور اخلاقی تربیت بھی ضروری ہےاور دل میں خوفِ خدا ہو، تو تنہائی میں بھی انسان خود کو پاکیزہ رکھتا ہے۔
بچوں کے موبائل پر پاس ورڈ لگے ہوتے ہیں، اور اگر والد پوچھے تو طنزیہ جواب ملتا ہے: “یہ پرائیویسی ہے!” سوچنے کی بات ہے کہ اگر بچے اپنے والدین سے کچھ چھپا رہے ہیں تو کیا یہ آزادی ہے یا بے لگامی؟

ایک باپ نے اپنے بیٹے کا موبائل چیک کیا تو پتہ چلا کہ وہ رات بھر آن لائن “دوستوں” سے ویڈیو کال پر ہوتا ہے، کلاس کی ساتھی لڑکیوں کی تصویریں شیئر کرتا ہے، اور خود کو ایک “ڈیجیٹل ہیرو” سمجھتا ہے — مگر حقیقت میں وہ ایک اخلاقی پسماندہ، ذہنی انتشار کا شکار بچہ تھا۔
نوجوانوں میں خودکشی، بلیک میلنگ اور جرم کے رجحانات میں اضافہ
گزشتہ سال صرف لاہور میں موبائل اور سوشل میڈیا کے اثر سے منسلک خودکشیوں کے 21 کیس رپورٹ ہوئے — جن میں زیادہ تر نوجوان تھے، جنہیں یا تو محبت میں دھوکہ ملا، یا آن لائن بلیک میلنگ کا شکار ہوئے۔

ہمیں اس کا حل صرف “موبائل چھین لینے” میں نہیں، بلکہ شعور دینے میں تلاش کرنا ہوگا:

والدین بچوں کے ساتھ دوستی کریں، ان کی دنیا سمجھیں۔
اساتذہ اسکول میں سوشل میڈیا کے اخلاقی استعمال پر لیکچر دیں۔
مساجد، مدارس، اور میڈیا کو چاہیے کہ وہ اس فتنے پر کھل کر بات کریں۔
حکومتی سطح پر بچوں کے موبائل ڈیٹا کے تحفظ اور استعمال کی اخلاقی حدیں طے کی جائیں۔
آج اگر ہم نے اس وبا کو نہ روکا تو کل ہمارے گھروں میں تربیت یافتہ نسل کے بجائے صرف “ٹرینڈنگ” ویڈیوز کی بھینٹ چڑھی ہوئی مخلوق ہوگی، جو والدین کو “ان سبسکرائب” کر دے گی اور زندگی کو “ریلس” میں تولے گی۔
اللّٰہ ہمارے حال پر رحم فرمائے، والدین کو بصیرت دے، اور نسلِ نو کو ہدایت عطا کرے۔ آمین۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.