اللہ رب العالمین نے قرآن الکریم میں فرمایا ہے ؛
ترجمہ: ” ان (کافروں) سے لڑو، اللہ ان کو تمہارے ہاتھوں عذاب دے گا اور انہیں رسوا کرے گا، اور ان پر تمہیں فتح دے گا، اور مومنوں کے دلوں کو ٹھنڈک پہنچائے گا۔”
(سورۃ التوبہ – آیت 14)
مشرقِ وسطیٰ میں ایک طویل عرصے سے اسرائیل ایک دہشت گرد ریاست کا کردار ادا کرتا چلا آ رہا ہے۔ جس سے ناصرف غزہ بلکہ مشرقِ وسطیٰ کے متعدد ممالک بھی محفوظ نہیں رہے۔ اسرائیل 2023ء سے لے کر 2025ء تک فلسطینی حمایتی تنظیموں حماس اور حزب اللہ کے کئی اہم ترین رہنماؤں اور اعلی قیادت کو اپنی جارحیت کا نشانہ بناتا آیا ہے۔ بلکہ لبنان، شام ،یمن،اردن اور ایران کی خودمختاری پہ بھی با رہا حملوں سے باز نہیں آیا ۔ جس میں اعلی قیادت و معصوم شہریوں کو بھی بربریت کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
13 جون جمعہ کی علی الصبح بھی اپنی مجرمانہ فطرت سے مجبور دہشت گرد غیر قانونی ریاست اسرائیل نے ایران کی خودمختاری پہ حملہ کیا۔ جس میں 200 اسرائیلی جنگی طیاروں نے ایران کے دارالحکومت تہران سمیت شیراز، تبریز اور شمال مغربی ایران میں اہم جوہری و فوجی تنصیبات اور رہائشی علاقوں کو نشانہ بنایا۔ جس میں ایران کے 9 اہم سائنس دانوں، اعلی فوجی قیادت جن میں پاسداران انقلاب کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی ، ایرانی آرمی چیف جنرل علی باقری، ایران کے معظم ء اعلی سید علی خامنہ ای کے مشیر اور کئی اہم کمانڈرز سمیت کئی معصوم بچوں اور شہریوں کی شہادت کی اطلاعات ہیں۔ اس کے بعد بھی وقتاً فوقتاً حملوں میں ایرانی آئل ریفائنریز اور دنیا کی سب سے بڑی گیس ریفائنری پہ بھی حملہ کیا گیا۔
اسرائیل کے اس دہشت گردانہ فعل پہ تمام مسلم اُمہ سمیت پوری دنیا بالخصوص پاکستان میں غم و غصہ کی شیدید لہر ڈور گئی۔ پاکستان نے اسرائیلی دہشت گردی کو ایران کی خودمختاری و خطے کی سلامتی و سالمیت پہ حملہ قرار دیتے ہوئے شدید مذمت کی ۔ اور بھرپور انداز میں ایران کی حمایت کا اعلان کیا۔ قومی اسمبلی میں ایران کی حمایت اور مشکل وقت میں ساتھ دینے کی باقاعدہ قرارداد بھی پیش کی گئی۔
مسلم دنیا میں ایران واحد اسلامی ریاست ہے۔ جو غزہ میں جاری اسرائیلی بیہمانہ جارحیت پہ نظریاتی و عملی طور پہ مسلسل علمِ حق بلند کرتی نظر آتی ہے۔ اور اس پہ اپنا ایک واضح و اٹل موقف اور دلیرانہ مزاحمتی جہدوجہد کی تاریخ رکھتی ہے ۔ یہی وجہ ہے۔ کہ ایران نے کبھی امریکی و اسرائیلی گھٹ جوڑ کے دباؤ کو اقتصادی و تجارتی پابندیوں کی صورت جھیلا ۔ تو کبھی اپنے اہم رہنماؤں کی شہادتیں دیکھیں۔ مگر ایرانی استقامت و عزمِ حریت میں کبھی کوئی لغزش نہ آ سکی ۔ یہی وجہ ہے۔ کہ مسلم اُمہ میں ایران اور ایرانی سپریم لیڈر محترم سید علی خامنہ ای کو قدر و محبت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
اگر ہم حالات و واقعات کا بغور جائز لیں۔ تو واضح نظر آتا ہے۔ کہ غیر قانونی صیہونی ریاست کو شہ کس کی حاصل ہے۔
“نو وار” (کوئی جنگ نہیں) کے سلوگن سے اقتدار پہ براجمان ہونے والے امریکی صدر ٹرمپ نے دنیا کے سامنے بظاہر پر امن ہونے کا لبادہ اوڑھا۔ اور پچھلے دنوں مشرقِ وسطیٰ کا کچھ مبہم سا دورہ بھی کیا۔ طویل عرصہ سے خطے کے دہشت گرد ملک اسرائیل کی جارحیت کا نشانہ بننے والے فلسطینیوں کی آزادی کی بات بھی کی ۔ مگر صرف “بات” ہی کی۔ ورنہ تو فلسطین میں جاری اسرائیلی بربریت کی بندش کے لئیے اقوامِ متحدہ میں پیش ہونے والی کسی بھی قرارداد کو امریکہ ہی پاس نہیں ہونے دیتا۔ دوسری طرف ٹرمپ نے پرامن ہونے کا ناٹک کرتے ہوئے ۔ ایران کو بھی مذکرات کی پیشکش کی ۔ جسے ایران نے قبول بھی کر لیا۔
انہی مذاکرات کا سلسلہ پیر سے عمان میں شروع ہونا تھا۔ اب اگر مذاکرات شروع ہو چکے تھے۔ تو اسرائیل کے کے پاس حملوں کا کیا جواز بنتا تھا۔ یعنی آپ ایک ہی وقت میں وقت و مقام طے کر کے مذاکرات بھی کر رہے ہیں۔ اور ساتھ ہی حملے بھی کر رہے ہیں۔ صاف ظاہر ہے ۔ کہ کفار کا پلان تیار تھا۔ اور محض مذاکرات کا جھانسا دے کر اپنے پلان پہ عمل کیا گیا۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے ۔ کہ امریکہ نےاسرائیلی جارحیت سے دو دن قبل سے ہی مشرقِ وسطی سے اپنے شہریوں اور اہلکاروں کو انخلاء کی ہدایات جاری کی تھیں۔ امریکہ نے بظاہر ایران پہ حملے سے لاتعلقی کا اظہار تو کیا۔ مگر ساتھ ہی اسرائیل کا ناصرف ساتھ دینے کا واضح عندیہ دے دیا ۔ بلکہ ایران پہ دھمکیوں کی بوچھاڑ بھی کر دی گئی۔ کہ اس سے پہلے کچھ نہ بچے ایران اسرائیل سے معاہدہ کرلے ۔ ورنہ مستقبل میں ہونے والے حملے اور بھی وحشیانہ ہوں گے۔ یعنی کفار کے گھٹ جوڑ نے حالات و واقعات ایسے بنا دیئے ۔ کہ ایران مذکرات سے ہاتھ اٹھا لے۔
اگر اس پورے منظر نامے کو بصیرت کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ تو صاف نظر آتا ہے۔ ک ایران کے خلاف کفار کا یہ شیطانی اتحاد محض اس لیے قائم ہے۔ کہ ایران نے مسلم اُمّہ کے ضمیر کی ترجمانی کرتے ہوئے ہمیشہ ایک واضح اسلامی و دینی عقیدے کی بنیاد پر صیہونی جارحیت کے خلاف علمِ مزاحمت بلند کیا، اور باطل کی تمام تر دھمکیوں، سازشوں اور اتحادوں کو پاؤں تلے روندتے ہوئے فلسطین کے مظلوموں کا ساتھ دیا ہے۔
ایران پہ صہیونی جارحیت کے بعد ایرانی شہر قم کی مسجدِ جمکران (Jamkaran Mosque) کے گنبد پر سرخ پرچم لہرا دیا گیا۔ جسے انتقامی پرچم یا “علامتِ انتقام” قرار دیا جاتا ہے۔ ایران کے سپریم لیڈر مردِ آہن محترم سید علی خامنہ ای نے کہا کہ اسرائیل نے اپنے لئیے تکلیف دہ قسمت کا انتخاب کیا ہے ۔ اور بدلہ لینے کا واضح عندیہ دیا۔ جس کی توقع ناصرف ایرانی بلکہ ہر مسلمان کر رہا تھا۔
سپریم لیڈر کی ہدایت کے مطابق ایرانی پاسدارانِ انقلاب نے “وعدہِ صادق 3″( الوعد الصادق-3) کے نام سے اسرائیل پہ آپریشن آغاز کیا ہے۔ ایرانی بلیسٹک میزائلوں نے تل ابیب کو روشنیاں