دل نواز تقریب ملاقات

14

منشا قاضی
حسب منشا

وہ انسان جس کے سامنے صرف اپنی ذات نہیں پوری کائنات ہے اس کو لوگ یاد رکھتے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ اچھے ارادے اور بلند مقاصد انسان کو کردار کی بلندی عطا کرتے ہیں اور بلند کردار انسان کو وہ جس ملک میں بھی رہتا ہو اس کی کارکردگی کا حسن اپ کے ائینہ ادراک پر رنگ و نور کی طرح چاندنی بکھیرتا رہتا ہے ۔ پاک عمان دوستی اور سمندر پار پاکستانیوں کے خیر خواہ جن کی دورس نگاہ کا یہ اعجاز ہے کہ وہ نابغہ اور عبقری شخصیات کو ایک میز پر اکٹھا کر لیتے ہیں ۔ ان کی خوئے دل نوازی سحر انگیز گفتگو کی جستجو میں میری اپنی ارزو جاگ اٹھتی ہے ۔پاکستان اور عمان کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے والے جناب جاوید نواز کو کون نہیں جانتا اور کون نہیں مانتا ۔ اپ کے تعلقات شاہی خاندان سے بھی ہیں اور ہم جیسے فقیروں سے بھی ۔ شکر گزاری اپ کی عادت ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ عادت عبادت میں ڈھل چکی ہے ۔ 40 سال سلطنت عمان میں پاکستان کی نیک نامی کے جلتےپھرتے محبت کے سفیر اور قونصلیٹ جنرل براے سرمایہ کاری رہے آپ نے عمان میں تین پاکستانی سکولوں کی بنیاد رکھی اور اج سلطنت عمان سے ائے ہوئے امیر حمزہ جو بورڈ اف ڈائریکٹرز پاکستانی سکول عمان کے موجودہ چیئرمین ہیں کے اعزاز میں عشائیہ تقریب کا اہتمام کیا جس کی صدارت جناب الطاف حسن قریشی نے کی ۔ ابتدائی کلمات میں جاوید نواز نے بتایا کہ قیامُ پاکستان کے وقت سلطنت عمان کے موجودہ سلطان کے والد سید طارق بن تیمور اور چچا فہر بن تیمور ڈیرہ دون سے پاکستان منتقل ہو گیے اور پاکستانی فوج میں کپٹن تعینات کیے گیے ۔ اس کے بعد اشتراکیُ پیش قدمی کے دوران افواج پاکستان نے عمان کی تحفظ کیُ
جنگ میں قابل تحسین خدمات انجام دیں – جاوید نواز نے یہ بھی بتایا کہ 70 کے ابتدائی دور میں عبدالستار بصرا ۔قاضی محمد یوسف ، محبوب رسول اور چوہدری اشرف وغیرہ نے پاکستانیوں کے لیے ملازمت اور کاروبار کے مواقع پیدا کیے ۔

کیا لوگ تھے جو راہ جہاں سے گزر گئے

جی چاہتا ہے نقش قدم چومتے چلیں

صاحب صدر نے پورا کالم لکھنے کا عندیہ دیا اور اپنی خامشی میں بھی وہ فصاحت و بلاغت کے دریا بہا رہے تھے ۔ بیرون ملک مقیم احباب جناب عدیل اکبر جن کی دلیل کے سامنے فصاحت و بلاغت کے چراغ نہیں جل سکتے ۔ مسقط سے امیر حمزہ کی موجودگی جاوید نواز کی سلطنت عمان میں کارکردگی کی گواہی دے رہی تھی ۔

مٹی کی محبت میں ہم اشفتہ سروں نے

وہ قرض چکائے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے

سلطنت عمان کے حکمرانوں کے دل میں پاکستان کی محبت اور پاکستانی حکمرانوں کے دلوں پر مسلسل دستک دینے والے جاوید نواز امیر حمزہ عدیل اکبر اور قطر میں مقیم جاوید نواز کے سعادت مند فرزند دلبند سلمان جاوید نواز مسلسل پاکستان کی معاشی زلف پریشاں کو سنوارنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ اور پاکستانیوں کو محبت کا پیغام دے رہے ہیں ۔

ان کا جو کام ہے وہ اہل سیاست جانیں

ہمارا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

جواں سال سلمان جاوید نواز جوان فکر الطاف حسن قریشی اور ملک کے نامور صحافی تجزیہ نگار ایک قومی اخبار کے مدیر اعلی جناب مجیب الرحمن شامی کی نگہ ء التفات سے فیض یاب ہو رہے تھے ۔ اور ان کی زندگی کے لیے دعا گو ہیں ۔ جناب جاوید نواز کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے جناب امیر حمزہ نے انہیں شاندار الفاظ بھی خراج تحسین پیش کیا گو پاکستانی حکمرانوں نے اس بطل جلیل کی وہ قدر نہیں کی جس کے یہ حقیقی سزا وار تھے ۔ لیکن جاوید نواز ان کے لیے بھی دعا گو ہیں بقول فیض

فیض زندہ رہیں وہ ہیں تو سہی

کیا ہوا گر وفا شعار نہیں

جناب جاوید نواز نے بحیثیت قونصلیٹ جنرل سرمایہ کاری دونوں ممالک اشتراک سے پاک عمان انویسٹمنٹ کمپنی کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا جاوید نواز نے سلطنت عمان میں قیام کے دوران پاکستانی کالج اور سکول سسٹم کے بورڈ اف گورنرز کے چیئرمین کے علاوہ پاکستان دو دفعہ سوسائٹی سوشل کلب کے صدر بھی منتخب ہوئے اور اس دوران نزوی صحار اور دوام ساحل پر پاکستان سکول پاکستانی سکول قائم کیے پاکستان کے شمال شمالی علاقوں میں 2005 کے زلزلہ کے متاثرین کی مدد لیے اڑھائی لاکھ ڈالر جمع کر کے پاکستان ارسال کیے ۔ ایشیائی تقریب میں سی این اے کے سربراہ سردار غلام مصطفی میرانی اور پنجاب یونیورسٹی شعبہ ء قانون کے پرنسپل فضیلت ماب پروفیسر امان اللہ خان ۔ ممتاز بزرگ صحافی محمد ریاض چوھدری۔ جاوید سعید ۔ اے ایم شکوری اور ملک کے دیگر زعمائے ملت موجود تھے جنہوں نے سلطنت عمان سے ائے ہوئے امیر حمزہ ۔ قطر سے سلمان جاوید نواز اور قطر سے عدیل اکبر کو ارادت و عقیدت کے چراغوں کی روشنی کی لو میں ان کا خیر مقدم کیا جن سے مل کر ہمیں زندگی کی حقیقی مسرت محسوس ہوئی ۔ جن کے متعلق بے خوف و خطر یہ فیصلہ دیا جا سکتا ہے کہ

جن سے مل کر زندگی سے پیار ہو جائے وہ لوگ

اپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.