صوبہ، خودمختاری یا الحاق

36

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں اپنے خیالات اور فیصلوں کو دوسروں پر مسلط کرنے کے رجحان کے ساتھ متنوع نقطہ نظر کو قبول کرنے میں کمی نظر آتی ہے۔
یہ صورت حال مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھی دکھائی دیتی ہے ، جہاں تین گروپ مختلف حل کی وکالت کرتے ہیں اور وہ ہیں پاکستان سے الحاق، پاکستان کے صوبے کے طور پر انضمام یا خودمختاری۔ ان مجوزہ حل پر علمی اور فکری بات چیت میں مشغول ہونا دلچسپ بھی ہے اور ضروری بھی۔

1948 میں تنازعہ کشمیر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) میں چلا گیا جس نے 21 اپریل 1948 کو قرارداد 47 کے ساتھ اس کا جواب دیا۔ اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق جنگ بندی اور کشمیر میں حق خودارادیت کے لئے رائے شماری کروانے کا کہا گیا۔ اقوام متحدہ کا کمیشن برائے ہندوستان اور پاکستان (UNCIP) جنگ بندی کی نگرانی اور کشمیر کی صورت حال کی نگرانی کے لیے قائم کیا گیا تھا، جس نے تنازعہ کے حل کے لیے اقدامات کا خاکہ پیش کرتے ہوئے کئی قراردادیں جاری کیں، جن میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کا انعقاد بھی شامل ہے۔

1971 کی پاک بھارت جنگ کے بعد ہندوستان اور پاکستان نے شملہ معاہدے پر دستخط کیے، جس میں کشمیر سمیت تمام تنازعات کو دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ تمام تر قراردادوں اور وعدوں کے باوجود بھارت نے کشمیری عوام کو حق خودارادیت دینے سے مسلسل انکار کیا ہے۔

19 جولائی 1947 کو آزاد جموں و کشمیر کانفرنس کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا جس میں خواجہ غلام الدین وانی اور عبدالرحیم وانی نے کشمیر کے پاکستان میں شامل ہونے کی وکالت کرتے ہوئے قرارداد پیش کی۔ چوہدری حمید اللہ خان کی زیر صدارت اور سردار ابراہیم کی رہائش گاہ پر منعقد ہونے والے اجلاس میں 59 سرکردہ کشمیری رہنماؤں نے شرکت کی جن میں سے سبھی نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔ تقسیم سے کچھ دیر پہلے منظور ہونے والی یہ قرارداد، مذہبی، ثقافتی اور جغرافیائی بنیادوں پر کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہی پونچھ سے آزادی کی تحریک کا پیش خیمہ بنی اور بالآخر آزاد کشمیر بھارتی تسلط سے آذاد ہوا۔ گزشتہ 75 سالوں سے کشمیر کے لوگوں نے بھارت کے غاصبانہ فوجی قبضے کے خلاف مزاحمت کی ہے اور مقبوضہ کشمیر کی ریاست میں بھارتی فوج اور نیم فوجی دستوں کی نمایاں موجودگی تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔ آزادی کی اس جدوجہد میں تقریباً نصف ملین کشمیری اپنی جانیں گنوا چکے ہیں بھارتی فورسز پر متعدد مظالم کا الزام ہے، جن میں 23,000 کشمیری خواتین بیوہ ہو چکی ہیں اور 11,000 خواتین کی عصمت دریاں کی جا چکی ہیں۔ کشمیر میں انٹرنیٹ کی شدید ترین بندش ہے، جو آن لائن مواصلات تک اس کی محدود رسائی کو نمایاں کرتی ہے۔

پاکستان تاریخی طور پر کشمیریوں کے لیے ایک فطری انتخاب رہا ہے۔ کشمیریوں کی اکثریت پاکستان کے ساتھ الحاق کے حق میں ہے جس کے بیشمار فوائد بھی ہیں۔ پاکستان کے ساتھ کشمیر کا ممکنہ الحاق خطے کو پاکستان کے حکمرانی کے ڈھانچے اور انتظامی نظام کے ساتھ زیادہ مستحکم سیاسی فریم ورک فراہم کر سکتا ہے۔ یہ صف بندی کشمیر میں زیادہ سیاسی استحکام اور موثر حکمرانی کو فروغ دے سکتی ہے۔ پاکستان کے ساتھ تاریخی، مذہبی، لسانی اور ثقافتی رشتوں کے ساتھ، خاص طور پر وادی کشمیر میں جہاں آبادی کی اکثریت مسلمان ہے، الحاق ثقافتی شناخت اور ورثے کے تحفظ کی کوششوں کو تقویت دے سکتا ہے، جس سے کشمیریوں کے درمیان تعلق کے احساس کو پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے ساتھ الحاق کشمیر کے لیے اقتصادی مواقع کو کھول سکتا ہے اور بڑی منڈیوں تک رسائی، غیر ملکی سرمایہ کاری اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور بالآخر معیار زندگی میں بہتری اور مقامی آبادی کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں مدد کر سکتا یے۔ پاکستان کے ساتھ الحاق سیکیورٹی تعاون، انٹیلی جنس شیئرنگ اور دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط بنا سکتا ہے اور اس طرح علاقائی استحکام اور غیر مستحکم خطے میں سیکیورٹی کے چیلنجوں سے نمٹنے میں مدد مل سکتی ہے۔

ایک اور تجویز جو چند حلقوں اور زیادہ تر خود ساختہ قیاس آرائیوں میں زیر بحث ہے وہ ہے کہ آذاد کشمیر کو پاکستان کا صوبہ بنایا جائے۔ ایک قائم شدہ ملک کا حصہ ہونے کے فوائد کو نظر انداز نہیں جا سکتا۔ صوبے، جو کہ کسی ملک کے انتظامی ڈھانچے کے لیے لازم و ملزوم ہیں، علاقائی ترقی کو آگے بڑھانے، مقامی طرز حکمرانی کو بڑھانے اور قومی یکجہتی اور خوشحالی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ صوبے معاشی مواقع سے لے کر ثقافتی تحفظ اور موثر طرز حکمرانی تک بہت سارے فوائد پیش کرتے ہیں جو کہ سماجی و اقتصادی منظرنامے اور قومی تانے بانے کو تقویت دیتے ہیں۔

کشمیر کے حوالے سے، آزاد جموں و کشمیر کا پاکستان کا صوبہ بننے کا فوری امکان اقوام متحدہ کی متعدد قراردادوں کی وجہ سے کم نظر آتا ہے، جن میں کشمیر کے پورے خطے میں حق خود ارادیت کے لیے استصواب رائے کرانے پر زور دیا گیا ہے اور اسے ایک متنازعہ علاقہ تسلیم کیا گیا ہے۔

آزاد جموں و کشمیر پاکستان کے اندر ایک مخصوص مقام رکھتا ہے، جو ایک خصوصی آئینی فریم ورک کے تحت چلایا جاتا ہے جو اس کی منفرد تاریخ اور ثقافتی شناخت کا احترام کرتا ہے۔ یہ خطہ، متنوع مناظر اور کمیونٹیز کی خصوصیت رکھتا ہے، مخصوص مراعات اور ترقیاتی اقدامات سے فائدہ اٹھاتا ہے جس کا مقصد سماجی و اقتصادی حالات کو بہتر بنانا اور کشمیریوں سمیت اس کے باشندوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانا ہے۔ یہ علاقہ اپنی منتخب کردہ قانون ساز اسمبلی، صدر اور وزیر اعظم رکھتا ہے، جس سے مقامی طرز حکمرانی اور فیصلہ سازی ممکن ہوتی ہے۔ آزاد جموں و کشمیر کے رہائشی علاقائی حکمرانی اور فیصلہ سازی کے عمل میں اپنی شرکت کو یقینی بناتے ہوئے آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی اور مقامی کونسلوں کے لیے نمائندوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ آزاد جموں و کشمیر ایک آزاد عدالتی نظام کو برقرار رکھتا ہے، جس میں ہائی کورٹ اور ماتحت عدالتیں شامل ہیں، جو اپنے دائرہ اختیار میں انصاف کے انتظام اور قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے لیے ذمہ دار ہیں۔

آزاد جموں و کشمیر کی حکومت مسئلہ کشمیر کے بارے میں عالمی سطح پر بیداری پیدا کرنے، کشمیریوں کے حقوق کی وکالت کرنے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق پرامن حل کے لیے بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے سفارتی اقدامات میں سرگرم عمل ہے۔ پاکستان میں مقیم کشمیری، بشمول آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے باشندے، وفاقی حکومت اور صوبائی انتظامیہ کی جانب سے فراہم کردہ مختلف خدمات اور مواقع سے مستفید ہوتے ہیں۔ کشمیری طلباء کو تعلیمی وظائف، گرانٹس اور یونیورسٹیوں میں مخصوص نشستوں تک رسائی حاصل ہے، جبکہ پاکستان بھر میں سرکاری اور نجی دونوں شعبوں میں روزگار کے مواقع دستیاب ہیں۔ کشمیریوں کو پاکستان بھر میں طبی دیکھ بھال اور صحت کی سہولیات تک رسائی بھی حاصل ہے، اور خصوصی علاج اور بڑے شہروں کے ہسپتالوں میں بھی سہولیات میسر ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں کشمیریوں کے قانونی حقوق اور تحفظ کو یقینی بناتی ہیں، ان کے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں اور ضرورت پڑنے پر قانونی چارہ جوئی کے لیے راہیں فراہم کرتی ہیں۔

آزاد جموں و کشمیر، کشمیر کی آزادی کی تحریک کے لیے بیس کیمپ کے طور پر کام کرتا ہے۔ آزاد جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں مقبوضہ کشمیر سے نقل مکانی کرنے والے مہاجرین کو نمائندگی دینا بھی ضروری ہے، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ علاقائی حکمرانی میں ان کی آواز سنی جائے۔ پاکستان کشمیر کو وسیع حمایت اور سہولیات فراہم کرتا ہے اور اسے بھارت کے برعکس خصوصی حیثیت کی پیشکش کرتا ہے، جس نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کر دیا ہے۔ آٹا اور بجلی جیسی ضروری اشیاء کی قیمتیں پاکستان کے دیگر حصوں کے مقابلے میں آزاد جموں و کشمیر میں نمایاں طور پر کم ہیں۔

کشمیر کی خودمختاری کی وکالت کرنے والے دلائل اکثر تلخ حقائق کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ایک نئے ملک کے طور پر آزادی کا راستہ چیلنجوں، پیچیدگیوں اور بے شمار رکاوٹوں سے بھرا ہوا ہے جنہیں استحکام، خوشحالی اور بین الاقوامی شناخت قائم کرنے کے لیے جاننا ضروری ہے۔ اقتصادی استحکام اور پائیدار ترقی بنیادی چیلنجز ہیں۔ نئے ملک میں معیشت کو مستحکم کرنے اور سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے مضبوط مالیاتی اداروں، کرنسی کے نظام اور مالیاتی پالیسیوں کا قیام ضروری ہوتا ہے۔ بین الاقوامی تجارتی معاہدوں پر گفت و شنید اور عالمی منڈیوں میں انضمام اقتصادی ترقی کے لیے اہم ہوتے ہیں۔ سڑکوں، نقل و حمل کے نیٹ ورکس، انرجی گرڈز اور ٹیلی کمیونیکیشن جیسے بنیادی ڈھانچے کو ترقی دینا اقتصادی سرگرمیوں کی حمایت اور رابطے بڑھانے کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے۔ اس طرح کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لیے خاطر خواہ فنڈز اور وسائل درکار ہوتے ہیں۔ کشمیر میں صنعتوں، ہوائی اڈوں اور بندرگاہوں اور انفراسٹرکچر کا فقدان ہے، جس کی وجہ سے خودمختار ملک بننے کا کا امکان مالی طور پر بھی مشکل ہے۔ خودمختاری کے حصول کے بجائے پاکستان کے ساتھ رہنے کا انتخاب استحکام اور سلامتی کو یقینی بنائے گا اور بقا کے لیے بیرونی امداد پر انحصار سے گریز کرے گا۔ بھارت جیسے دشمن پڑوسی ملک کے ہوتے ہوئے کشمیر کا ایک الگ ملک کے طور پر رہنا انتہائی مشکل ہوگا۔ آزاد جموں و کشمیر میں پاکستان کی مسلح افواج کی موجودگی بھارتی جارحیت کے خلاف ایک رکاوٹ کا کام کرتی ہے۔ کشمیر کی بقا پاکستان کے ساتھ الحاق پر منحصر ہے، یہ جذبہ کشمیریوں میں وسیع پیمانے پر پایا جاتا ہے جو پاکستان کے ساتھ گہرے ثقافتی، لسانی اور مذہبی تعلقات رکھتے ہیں۔ وادی کشمیر کے لوگ جس میں زیادہ تر مسلمان ہیں، پاکستان کے اسلامی تشخص سے قریب تر ہیں اور پاکستان کو حق خود ارادیت کی جدوجہد میں ایک فطری چوائس سمجھتے ہیں۔ پاکستان نے مسلسل کشمیریوں کے حقوق کی حمایت کی ہے اور مسئلہ کشمیر کو عالمی فورمز پر فعال طور پر اٹھایا ہے۔ کشمیری پاکستان کے ساتھ الحاق میں معاشی فوائد دیکھتے ہیں، جیسے کہ بڑی منڈیوں تک رسائی، بنیادی ڈھانچے کی ترقی، اور اقتصادی مواقع جو مقامی غربت اور بے روزگاری کو کم کرسکتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے خطے میں ہندوستانی فوجی دستوں کی موجودگی اور ظلم و تشدد کی وجہ سے کشمیریوں میں سیکورٹی کے بارے میں خدشات بڑھ گئے ہیں، جس سے کشمیری پاکستان کے ساتھ رہنے میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔ کشمیری زیادہ سے زیادہ سیاسی نمائندگی اور آذادی حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں، یہ یقین رکھتے ہوئے کہ ان اہداف کو پاکستان کے وفاقی نظام کے اندر بہتر طریقے سے حاصل کیا جا سکتا ہے، جو ممکنہ طور پر انہیں قومی فیصلہ سازی میں مضبوط آواز فراہم کرتا ہے۔ یہ امر کشمیریوں کے لیے یقین دہانی کا کام کر رہا ہے کہ پاکستان بین الاقوامی فورمز میں کشمیر کیس کی فعال وکالت کر رہا ہے۔

میرا پختہ یقین ہے کہ پاکستان کا فی الحال کشمیر کو صوبہ بنانے یا اسے ملک کے کسی دوسرے صوبے میں ضم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ بنیادی توجہ کشمیریوں کو ان کی مرضی اور پسند کے مطابق حق خودارادیت کے حصول پر مرکوز ہے۔ اس مرحلے پر کوئی بھی افواہیں یا قیاس آرائی پر مبنی پروپیگنڈہ بے بنیاد اور غیر متعلقہ ہے، جو ممکنہ طور پر ریاست مخالف عناصر اور ہمارے مخالفین کی طرف سے پاکستان کے خلاف نفرت کو ہوا دینے کے لیے پھیلایا جا رہا ہے۔ ان افواہوں کی کوئی حقیقت پر مبنی بنیاد یا حقیقت سے مطابقت نہیں ہے۔ پاکستان، ایک ذمہ دار ملک کے طور پر کام کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے ضوابط پر سختی سے عمل کرتا ہے اور مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے کسی بھی قسم کی تاخیر کی وجہ صرف اور صرف ہندوستان اور اسکی ہٹ دھرمی ہے۔

کشمیریوں کی اکثریت موجودہ زمینی حقائق کو سمجھتی ہے اور کشمیر کی عوام بالآخر الحاق کا فیصلہ پاکستان کے ہی حق میں اور اپنے فطری جھکاؤ کی بنیاد پر کرے گی-

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.