مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں تعاون سے سیاسی استحکام کی راہیں روشن

55

اداریہ

دنیا کی کسی بھی حکومت کیلئے عوام کو سہولیات دینے کے لئے پہلے سیاسی استحکام لانا ضروری ہوتا ہے ،جس سے امن اور ترقی کے راستے نکلتے ہیں ۔
جہاں سیاسی افراتفری ہوگی وہاں معاشی استحکام بھی نہیں ہوگا اس کے لئے مضبوط حکومت ہی اپنے عوام کی بہتری کے لئے یکسوئی سے کام کرسکے گی
اسی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کی حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔
پاکستان میں مسلم لیگ کی سربراہی میں مخلوط حکومت نے عوام کی بہبود کے کئی منصوبے شروع کئے ہیں تاہم ان منصوبوں کو احسن طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچانے کی خاطر سیاسی استحکام ضروری ہے ۔
ملک نازک دور سے گزر رہا ہے اس لئے سیاستدانوں کو عوام کی خاطر ان کے مسائل حل کرنے کیلئے سرجوڑ کر بیٹھنے کی جتنی ضرورت آج ہے پہلے کبھی نہیں رہی ،آج ملک کی ایک بڑی مرکزی جماعت نے حکومت کا ساتھ دینے کا عہد کرکے کچھ عہدے بھی سمیٹے تاہم مرکزی وزارتیں چھوڑ کر ملک میں سیاسی بحران کی سی صورت نظر آنے لگی
دریں اثنا اس بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے ساتھ
اختلافات شدید ہونے کی خبریں بھی میڈیا نے عام کردیں جس سے حالات مزید خراب ہونے کا اندیشہ پیدا ہوا
تاہم اسی دوران مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان مفاہمت کی اطلاعات نے کچھ حالات سازگار بنائے ہیں
اس تناظر میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے درمیان درمیان مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں
جہاں بلاول بھٹو زرداری نے وزیر اعظم شہباز سے ملاقات میں بجٹ پاس کرانے کی یقین دہانی کرا دی۔
بلاول بھٹو وفد کے ہمراہ وزیر اعظم ہاؤس پہنچے تو ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔
پیپلز پارٹی کے وفد میں راجا پرویز اشرف، شیری رحمٰن، خورشید شاہ، نوید قمر شیری رحمٰن اور
چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی شامل تھے۔
ملاقات میں وزیراعظم اور بلاول بھٹو زرداری نے قومی و سیاسی امور پر گفتگو کی جبکہ شہباز شریف نے
بجٹ کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ مزید مشاورت بھی کی۔باوثوق ذرائع نے کہا کہ
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے وزیراعظم سے گلے شکوے کیے اور چارٹر آف ڈیمانڈ بھی تھما دیا۔
بلاول نے سندھ کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے مزید فنڈز مختص کرنے کے ساتھ ساتھ وفاق اور
پنجاب کے بجٹ پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔
پیپلزپارٹی نے جنوبی پنجاب میں انتظامی کنٹرول کا مطالبہ کیا اور حکومت کو یاد دہانی کرائی
کہ انہوں نے پی ایس ڈی پی اور بجٹ کے حوالے سے وعدے پورے نہیں کیے۔
اتحادی جماعت نے وزیر اعظم کو بجٹ کے حوالے سے بھی اپنے خدشات سے آگاہ کیا۔
وزیراعظم نے بلاول بھٹو کو تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ
بجٹ پر پیپلز پارٹی کے خدشات دور کیے جائیں گے اور پنجاب اور سندھ سے متعلق مطالبات بھی تسلیم کیے جائیں گے۔
دوران ملاقات وفد کو آئی ایم ایف سے متعلق معاملات پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا گیا کہ
آئی ایم ایف کی شرائط کو نہیں چھیڑا جائے گا۔
ملاقات کے بعد وزیر اعظم نے پیپلز پارٹی کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ معیشت کے حوالے سے مثبت اعشاریے آ رہے ہیں اور اسٹاک مارکیٹ میں تیزی کاروباری طبقے کی طرف سے بجٹ کی توثیق ہے۔
انہوں نے کہا کہ بجٹ میں عام آدمی کو ریلیف دینے کے لیے اقدامات اٹھائے گئے ہیں اور عوام کی
فلاح و بہبود کے لیے سیاسی جماعتوں کو مل کر کام کرنا ہے۔
پیپلزپارٹی کے وفد سے ملاقات کے بعد وزیراعظم کی جانب سے وفد کے اعزاز میں عیشائیے کا اہتمام کیا گیا۔
ملاقات میں اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، نائب وزیراعظم و وفاقی وزیر خارجہ اسحٰق ڈار
وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال، وفاقی وزیر خزانہ و محصولات محمد اورنگزیب
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطااللہ تارڑ، وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنااللہ
وزیر مملکت برائے خزانہ و محصولات علی پرویز ملک اور خواجہ سعد رفیق بھی موجود تھے۔
ان حالات میں ملک میں سیاسی استحکام لانے کی کاوش سے بہتری کے آثار نمایاں ہوئے ہیں ۔
ملک میں سیاسی ڈائیلاگ کی روایت سے مثبت پیشرفت سامنے آرہی ہے
جس سے اب ملک کی غیریقینی صورتحال کا خاتمہ ہوسکے گا۔
سیاسی استحکام سے ہی ملک کے مالیاتی بحران بھی ٹل جائیں گے اور عوام کی ترقی اور
خوشحالی کے راستے ہموار ہوتے چلے جائیں گے ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.