بشکیک سے پاکستان پہنچنے والے طلبا نے حقیقت بتادی

78
بشکیک سے طلبا کو لانے والی پرواز لاہور پہنچ گئی، پرواز کے ذریعے 140 طلبا وطن واپس پہنچے ہیں۔
کرغزستان سے لاہور ایئرپورٹ پہنچنے والے پاکستانی طلبا نے تشدد اور مارپیٹ کی داستان سنادی۔

یاد رہے کہ گزشتہ رات کرغزستان میں حملوں کے بعد پاکستانی طالب علموں کی روانگی شروع ہوئی تھی، رات 12 بجے کے بعد پہلی پرواز 140 پاکستانی طلبا سمیت 180 مسافروں کو لے کر لاہور پہنچی تھی۔

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمر نامی طالب علم نے بتایا کہ مقامی افراد بڑی تعداد میں پاکستانی اور بھارتیوں کے ہاسٹلز کے باہر جمع ہونا شروع ہوئے، ٹک ٹاک پر لائیو ویڈیو بھی چلائی گئیں،کرسیوں، مکیوں، آہنی کلپس سے تشدد کیا۔

شاہزیب نامی طالب علم نے بتایا کہ جب صورتحال بے قابو ہوئی تو وہ اپنے دوستوں کے ہمراہ فلیٹ میں چھپے ہوئے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ بشکیک میں مصری لوگوں نے ایک جھگڑے کے دوران مقامی لڑکوں کو مارا تھا، لڑائی کے دوران ویڈیوز بھی بنائی گئیں، مصری لڑکوں نے وہ ویڈیوز سوشل میڈیا پر اپلوڈ کردی تھیں، ویڈیوز سوشل میڈیا پراپلوڈ کرنے کے بعد فسادات شروع ہوئے۔

شاہزیب نے بتایا کہ وہاں کے مقامی ٹرانسپورٹرز بھی غیر ملکی طلبا پر تشدد کر رہے ہیں جبکہ یونیورسٹیز انتظامیہ بھی جھوٹ بول رہی ہے۔

طالب علم کا کہنا تھا کہ کوئی جگہ بھی محفوظ نہیں سڑکوں پر بھی ڈھونڈ ڈھونڈ کر طلبا کو مارا جارہا ہے، وہاں کی مقامی پولیس بھی کوئی تعاون نہیں کررہی، پولیس واقعے کے 2 سے 3گھنٹے بعد جائے وقوع پر پہنچی۔

ایک سوال کے جواب میں طالب علم شاہزیب کا کہنا تھا کہ ہم نے واپسی کے لیے اپنے ٹکٹس خود بک کرائی ہیں، پاکستانی سفارت خانے کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم لوگ پاکستان اپنی مدد آپ کے تحت واپس آئے ہیں، کرغزستان میں پاکستان کے طالب علموں کی تعداد تقریباً 10 ہزار ہے جن کی بڑی تعداد اس وقت مشکل میں ہے۔

18 مئی کو کرغزستان میں طلبہ کے ہاسٹل پر مقامی انتہاپسند عناصر نے حملہ کیا تھا جس میں متعدد طالبعلم زخمی ہو گئے تھے اور ان حملوں کے بعد سیکڑوں پاکستانی طالبعلم بشکیک میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔

بشکیک میں حملوں کے طلبہ کو مقامی انتہا پسندوں نے ہاسٹلز سے جبری بے دخل کرنا شروع کردیا ہے جس کے بعد پہلے سے عدم تحفظ کا شکار یہ طلبہ بے سروسامانی کی حالت میں محفوظ مقامات تلاش کرتے پھر رہے ہیں جبکہ کچھ طلبہ اپنے اپنے ہاسٹل کے کمروں تک محدود ہیں جہاں انہیں کھانے پینے کی اشیا کی شدید قلت کا سامنا ہے۔

تبصرے بند ہیں.