نادیہ سحر کا شعری جہاں ” زندگی تمہی سے ہے”

69

تحریر : فیصل زمان چشتی

ذوق جمالیات جب بام کمال تک پہنچتا ہے تو شاعری کا ظہور ہوتا ہے۔ شاعری فنون لطیفہ کی تمام اصناف سے زیادہ لطیف ، موثر ہونے کے ساتھ ساتھ کتھارسس کا بہترین ذریعہ ہوتی ہے۔ احساسات و جذبات کا جتنا خوبصورت اور موثر اظہار اس صنف میں ہوتا ہے کسی اور میں ہوہی نہیں سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ صدیوں سے شاعری کا طلسماتی رنگ قائم و دائم ہے۔ یہ عطائے خداوندی ہے جس میں مرد و زن کی تخصیص نہیں ہے۔ احساسات و جذبات کو الفاظ کا پیرہن عطا کرنا اور اسے موتیوں کی لڑی میں پرونا ایک معجزاتی کام ہے۔ مرد کے مقابلے میں عورت زیادہ حساس ہوتی ہے۔ فہم و سخن میں بھی وہ پیچھے نہیں ہے لیکن سماجی و معاشرتی مسائل اور دباؤ کی وجہ سے اکثر خواتین ذوق_ سخن جاری نہیں رکھ سکتیں لیکن ذوق_ ادب کی چنگاری ان کے دلوں میں ہر وقت بھڑکتی رہتی ہے۔ لیکن کچھ جرات مند اور حوصلہ مند خواتین ایسی بھی ہوتی ہیں جو تمام مسائل کا سامنا اور ہر قسم کا دباؤ برداشت کرتے ہوئے شعر و سخن کے میدان میں کھڑی نظر آتی ہیں۔ اس ضمن میں پروین شاکر، نوشی گیلانی، ادا جعفری ، فہمیدہ ریاض اور شبنم شکیل وغیرہ کی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ انہوں نے بےشمار لکھا اور کمال لکھا۔ مرد و زن میں ان کی شاعری یکساں مقبول ہوئی۔ نادیہ سحر بھی اسی قبیل سے تعلق رکھتی ہیں جن کا انداز بیاں خوبصورت بھی ہے، دلپذیر بھی ہے اور منفرد بھی۔ ان کی شاعری شائستگی اور شگفتگی سے عبارت ہے۔ نادیہ سحر کے زیر نظر اولین شعری مجموعے ” زندگی تمہی سے ہے” میں انہوں نے اپنے کلام سے سب کو یہ بتایا ہے کہ آج کے دور میں بھی خواتین شاعری میں مردوں سے پیچھے نہیں ہیں۔ نادیہ سحر نے مشاعروں کے ہنگام سے دور رہ کر اپنی تخلیقی دنیا بسائی ہے جو ان کی اپنی ہے جہاں زندگی کے رنگ ہیں، خوبصورتی ہے ، دکھ بھی ہیں ، سکھ بھی ہیں ، خواب بھی ہیں ، حقیقتیں بھی ، رشتے ، ناطے ، بیوفائی ، غم ، خوشی ، حسرت ، یاس غرضیکہ اس حیات_ فانی میں جو ایک انسان دیکھتا ہے محسوس کرتا ہے یا برداشت کرتا ہے بیان کر دیا ہے یہی خالص اور جینوئن شاعری ہوتی ہے جو زندگی کے مشاہدات اور تجربات کو زیر قلم لے آتی ہے ایسی بات ہی پرتاثیر ہوتی ہے جو دل کے نہاں خانوں سے قرطاس پر منتقل ہو۔ نادیہ سحر نے اپنے جذبات و خیالات کا خوبصورتی سے اظہار کیا ہے جو قاری کو متوجہ بھی کرتا ہے اور متاثر بھی کرتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی خوشیاں چھوٹی چھوٹی امیدیں انسان کو زندگی کی طرف مائل کرتی ہیں اور یہیں سے جیون میں رنگ اور بہاریں داخل ہوتی ہیں۔ احساسات اور جذبات کے بغیر زندگی روبوٹک اور بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے لیکن نادیہ سحر نے اپنی شاعری کے ذریعے زندگی کا ہر لمحہ اور اس کے ساتھ جڑے تمام لوازمات اپنی شاعری کا حصہ بناکر اسے خوبصورت اور قیمتی بنا دیا ہے۔ یہ اپنے اشعار میں امکانات ڈھونڈتی نظر آتی ہیں اور مایوس نہیں ہوتی ہیں انہوں نے زندگی کے دکھوں اور مسائل سے سیکھا ہے ہمت نہیں ہاری بلکہ غموں نے اسے مضبوط کیا ہے اور کچھ کرنے ہمت عطا کی ہے۔ مشکلات اور تکالیف میں اس کا احساس اسے شاعری پر آمادہ کرتا ہے جس سے اس کا کتھارسس بھی ہو جاتا ہے اور پھر وہ زندگی کی نئی راہوں پر نئے عزم اور نئے حوصلے کے ساتھ نئی منزلوں کی تلاش میں سرگرداں نظر آتی ہے۔ نادیہ سحر کی شاعری میں خالص پن ہے جو ان کی شاعری کو ممتاز مقام پر فائز کرتا ہے۔ یہ سیدھی بات کرنے کی عادی ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار دل میں اتر جاتے ہیں۔ زندگی کی دھوپ چھاؤں کے رنگ ان کی شاعری کے بنیادی موضوعات ہیں۔ ان کا بیانیہ بالکل واضح اور شفاف ہے جس کی وجہ سے ان کے خواب اور حقائق سے زندگی کا ایک نیا جہان آباد ہوتا ہے جو کبھی خوشبوؤں سے معطر رہتا ہے تو کبھی رت جگے اور کٹھنائیاں اس کا مقدر ٹھہرتے ہیں غرضیکہ ان کی شاعری کا ہر موسم اور ہر رنگ اپنی دنیا اور اپنا جہان لئے ہوئے ہے۔ نادیہ سحر کی شاعری ہمیں ان حقائق سے بھی آگاہ کرتی ہے کہ گھٹن میں دیوار سے روزن کیسے نکالا جاتا ہے اور خزاں میں بہار کیسے لائی جا سکتی ہے۔ ان کی آواز بھرپور اور توانا ہے ۔ ان کی اپنے عہد اور سماج سے جڑت نے ان کے شعری وقار میں اضافہ کیا ہے۔ ان کا شعری وجدان ان کو اپنے معاشرے کی ناہمواریوں اور بے اعتدالیوں پر بات کرنے پر مجبور کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار میں وہ کمال موجود ہے جو ایک اچھی شاعرہ کی میراث ہوتا ہے۔ شاعری ایک مشکل رستہ ہے خاص کر خواتین کے لیے مگر نادیہ سحر نے اپنی لگن، جدوجہد اور ریاضت سے یہ ثابت کیا ہے کہ لگن سچی ہو تو مشکل کام بھی آسان ہو جاتے ہیں۔ اس کتاب میں چند نظمیں بھی شامل ہیں جو مختصر ہیں مگر موضوعات پر ان کی گرفت ، ان کی روانی اور مصرعوں کی بنت قابل تعریف ہے۔ بنیادی طور پر وہ غزل کی شاعرہ ہیں اور انہوں نے اس کتاب میں غزل پر ہی توجہ مرکوز رکھی ہے۔ آجکل کے مصنوعی اور فیک عہد میں جب ہر چیز میں ملاوٹ اور دونمبری غالب آچکی ہے جینوئن اور حقیقی ادب ایک نعمت سے ہرگز کم نہیں ہے۔ نادیہ سحر نے شاعری کے میدان میں آہستہ آہستہ مگر دھیان ، احتیاط اور مضبوطی سے اپنے قدم جمائے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک جینوئن شاعرہ اردو ادب کو میسر آئی ہے۔ آخر میں نادیہ سحر کی کتاب ” زندگی تمہی سے ہے ” سے کچھ اشعار احباب کے اعلٰی ادبی ذوق کی نذر۔۔

اگر مکین کی دھڑکن سنائی دے نہ سحر
تو قصرِجسم بھی مٹی کا اینٹ گارا ہے

جب تلک زندگی ہے رونا ہے
بعد اس کے تو صرف رونا ہے

درد ہی ہے مرا شریک_ حیات
درد ہی اوڑھنا بچھونا ہے

ان حادثات سے ہی بھرم ہے حیات کا
یہ حادثے ازل سے مرے ساتھ آئے ہیں

ہم سے شکست ظلمتِ شب نے بھی کھائی ہے
ہم نے چراغِ اشک سحر تک جلائے ہیں

سانسوں کی بانسری میں تمہارا ہی سوز تھا
دھڑکن پہ زندگی کا ترانہ تھے صرف تم

میں دکھوں سے کنارا کرتی ہوں
چھوڑ جاتا ہے پھر وہیں کوئی

راستے خوف سے بھرے ہوئے ہیں
لوگ اندر سے سب ڈرے ہوئے ہیں

کچھ تو ایسا ہوا ہے جس کے سبب
اپنے سائے بھی ڈرے ہوئے ہیں

قربان کردیئے سبھی دل کے معاملات
بیٹی نے اپنے باپ کی دستار دیکھ کر

دل مرا سوچ کے اس بات کو ڈر جاتا ہے
اپنے پیروں کو بچاوں تو سفر جاتا ہے

ماں لحد سے نکل کے گھر آجا
میں اکیلی ، بہت اکیلی ہوں

فائدہ ہے یہی بچھڑنے کا
پھر بچھڑنے کا ڈر نہیں رہتا

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.